Thursday, August 25, 2016

किया मज़हब खौफ और लालच की बुनियाद पर बना है ? ( उर्दू पोस्ट )

کیا مذہب خوف اور لالچ کی بنیاد پر بنا ہے؟

آج کل مختلف ذرائع سے اس بات کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مذہب کی بنیاد خوف ہے۔ یعنی مذہب یا مذاہب کےبانی انسان کو اس خوف میں مبتلاء کرتے ہیں کہ اگر مذہب کو نہیں مانو گے یا مذہب جو رویہ اختیار کرنے کو کہتا ہے اس کے مطابق نہیں چلو گے تو ایک برے انجام سے دوچار ہو جاؤ گے۔ انسان اس خوف کی بنیاد پر مذہبی بنتا ہے۔ اس طرح یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مذہب انسان کی اس کمزوری کا استحصال کر کے انسان کو اپنا پابند بناتا ہے۔
چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لئے یہاں پر صرف اسلامی تناظر میں بات کی جائے گی۔ ہم جب قرآن میں دیکھتے ہیں کہ کفر کرنے والوں اور اللہ کے احکامات کو رد کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب کی وعید دی جا رہی ہے تو ہمیں بھی لگتا ہے کہ بات صحیح ہے۔
اس الزام کے ساتھ ایک اور الزام بھی نتھی کردیا جاتا ہے کہ مذہب نہ صرف خوف بلکہ لالچ اور حرص کی بنیاد پر بھی ہے۔ یعنی انگریزی محاورے کے مطابق مذہب سٹک اور کیرٹ (Stick and carrot)کی چال چل کر انسان کو اپنا پابند بناتا ہے۔ جب ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے بڑے بڑے انعامات رکھے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ واقعی میں الزام صحیح ہے۔
اول تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ خوف اور لالچ کی بنیاد پر کسی کو پابند بنانے میں برائی کیا ہے؟
مثلاً اگر کوئی بندہ اپنے ملک کے قانون کی پابندی نہیں کرے گا تو اسے سزا ملنے کا خوف دلایا جاتا ہے۔
اگر کسی کمپنی میں سیلزمین زیادہ سیلز کرے گا تو اسے کمیشن کا لالچ دیا جاتا ہے۔ اور اگر مطلوبہ ٹارگٹ حاصل نہ کرے تو اسے اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
اگر طالب علم محنت کر کے مطلوبہ نمبر حاصل نہ کرے تو وہ فیل ہوسکتا ہے اور اگر طالب علم زیادہ محنت کر کے پوری کلاس میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرے تو اسے انعام ملے گا۔
اوپر کی تمام مثالوں پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام حالتوں میں خوف اور لالچ کا استعمال بالکل صحیح ہے اور کوئی اسے غلط نہیں سمجھتا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام حالات میں خوف اور لالچ کا استعمال ہمیں برا کیوں نہیں لگتا اور مذہب میں اس کے استعمال پر اعتراض کیوں؟
اس کی وجہ یہ کہ ہم قانون کی پابندی کے اخلاقی اور منطقی جواز کے قائل ہیں۔ اسی طرح ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک کمپنی کسی کو تنخواہ دے رہی ہے تو اس ملازم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کمپنی کو فائدہ پہونچائے۔ اسی طرح ہم اس بات کو بھی منطقی مانتے ہیں کہ تعلیم کے لئے امتحانات ضروری ہوتے ہیں اور کامیاب طالب علم کو ہی اگلی کلاس میں بھیجا جانا چاہئے۔
یعنی اگر کسی چیز کا منطقی اور اخلاقی جواز موجود ہو تو اس کے لئے خوف اور لالچ کا استعمال بالکل ہی جائز ہونا چاہئے۔
یہ جب غلط ہے جب کسی کو خوف یا لالچ دلا کر کسی ایسے کام پر مجبور کیا جائے جس پر اس کا ضمیر مطمئن نہیں ہو۔ یا یہ جب غلط ہے جب خوف کی ایسی کیفیت پیدا کیا جائے کہ اس بندے کو اس کے اخلاقی یا منطق جواز پر غور کرنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔
اب ذرا قرآنی نکتہ نظر کو دیکھا جائے، قرآن تو اصل میں ہمیں دعوت دیتا ہے اور جس چیز کی دعوت دیتا ہے اس کے لئے انسان کی سمجھ اور شعورسے اپیل کرتا ہے، اس کے ضمیر کو جھنجوڑتا ہے، اپنی دعوت کے لئے انسانی فطرت ، انسانی عقل اور انسانی تاریخ کو گواہ بناتا ہے۔ اور اس کے باجود جب انسان قرآن کی دعوت کو رد کرتا ہے تو پھر خبردار کرتا ہے کہ تمہارا اس دعوت کو رد کرنا اس مقصد کی صریح خلاف ورزی ہے جس کے لئے تمہارے خالق نے تمہیں پیدا کیا ۔ اس لئے اس سرکشی کے انجام میں سخت سزا دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طمع دلاتا ہے کہ تمہارے خالق نے جس مقصد کے لئے تمہیں پیدا کیا اگر اس مقصد کو پورا کروگے تو اس کے نتیجے میں تم اللہ کے انعامات اور اس کی رضا کے مستحق ٹہروگے۔
حقیقت یہ ہے کہ سزا وجزا اللہ کے عدل کا لازمی تقاضا ہے۔ سزا و جزا پر اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ اللہ اپنے فرماں برداروں اور سر کشوں کے ساتھ ایک قسم کا معاملہ کرے۔ ایسا مطالبہ کرنے والوں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا ہو، امتحان میں کم نمبر حاصل کرنے والوں کو فیل کردیا جائے اوراپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے والے ملازم کو فارغ کردیا جائے۔
الغرض اسلام میں سچ مچ خوف بھی ہے اور طمع بھی ہے۔ لیکن خوف و طمع سے پہلے اسلام اپنا اخلاقی اور منطقی مقدمہ پیش کرتا ہے اور پھر نہ ماننے والوں کو وعید اور ماننے والوں کو خوشخبری دیتا ہے۔ اعتراض کرنے والے سیکولر اور ملاحدہ خوف اور طمع کا ذکر کچھ ایسے انداز میں کرتے ہیں گویا کہ اسلام ایک اندھا بہرا مذہب ہے اور اس میں فرماں برداری کرنے کی ترغیب کی بنیاد صرف اور صرف خوف و طمع ہے اور اس کی کوئی اخلاقی اور منطقی بنیاد نہیں ہے۔
اگر کوئی ملحد یا کافر اسلام کے پیش کردہ اخلاقی اور منطقی بنیاد پر مطمئن نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ اس جواز پر بحث کرے۔ یہ رویہ اختیار نا کہ گویا کہ اسلام خوف و طمع کے علاوہ اپنا کوئی مقدمہ رکھتاہی ایک فریب ہے جس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دلوں میں تشکیک کے بیج بونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس قسم کے اعتراضات میں ایک تناقض بھی ہوتا ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اسلام جو خوشخبریاں اور وعیدیں دیتا ہے اس کا اثر صرف اس پر ہوسکتا ہے جو اسلام پر یقین رکھتا ہے۔ جو اسلام پر یقین نہیں رکھتا ظاہر بات ہے کہ وہ ان خوشخبریوں اور وعیدوں پر بھی یقین نہیں رکھتا۔ اب اگر کسی پر اس خوف و طمع کا اثر ہورہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور اس کے خالق نے اسے ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کا واضح ترین مطلب یہ ہے کہ سزا و جزا کو ماننے والا لازمی طور پر سزا و جزا کے اخلاقی اور منطقی جواز پرپہلے سے مطمئن ہوتا ہے۔
جو شخص اسلام پر یقین نہیں رکھتا وہ اسلام کی بیان کردہ خوشخبریوں اور وعیدوں پر بھی یقین نہیں رکھے گا۔ اس لئے اس پر نہ اسلام کی پیش کردہ دھمکیوں کا کوئی اثر ہوگا اور نہ اسلام کی مجوزہ تحریص و ترغیب کا۔ ایسے میں اسلام کی تشریح خوف و طمع کی بنیاد پر کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا سوائے اس کے کہ اعتراض کرنے والا ابھی یہی طئے نہیں کرپایا کہ وہ اسلام کو مانے یا رد کردے۔ الحاد و تشکیک کے دلدادوں کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ یہی طئے نہیں کرپاتے کہ انہیں ماننا کیا ہے۔ یہ شہوات اور دنیا کی لذتوں کو منتہائے مقصود بنانے کے بعد اپنے انجام کے خوف کو کم کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔
تحریر: ذیشان وڑائچ

खुदा को किस ने बनाया ? एक साइंटिफिक साइड ( उर्दू पोस्ट )




خدا کو کس نے بنایا ایک سائنسی رخ


.

















شعور کے خوگرانسان کے لیے خدا کا وجود ہمیشہ ایک معمّہ ہی رہا ہے اور ہر دور میں علم، منطق اور عقل کی روشنی میں خدا کو جاننے کی کاوشیں جاری رہی ہیں۔ آئیے! اسی عقل، منطق، علم اور سائنس کی دریافتوں کی روشنی میں خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خدا کے وجود کا پیرایہ سمجھنے سے پہلے وجود کی ماہیّت سمجھنا ضروری ہے کہ وجودیت خود کیا ہے!
وجود کا قفس : Cage of Existence
انسان اور اس کی عقل و شعور کا موجود ہونا بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ انسان جب کائنات کی تخلیق کے حوالے سے خدا کے وجود پر غور کرتا ہے تو اس کی عقل اس لیے معطّل ہوجاتی ہے کہ وہ وجودیت کے پیرائے کو اپنے شعور میں ایک فطری اور سختی سے پیوست تاثر کا پرتو ہی سمجھنے پر مجبور ہے۔ انسان طبعی وجودیت میں قید ہے اور اپنے محدود شعور کے باوصف وجود کے حوالے سے اسی طبعی وجودیت کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ یہی ایسی بھول بھلیّاں ہے جس میں انسان صدیوں سے گھوم رہا ہے اور نکل نہیں پا رہا۔ جدید علوم اور نئی دریافتوں نے اس مخمصے میں اضافہ کیا ہے۔ حقیقت آشنائی کے لیے اب کسی اچھوتی سوچ کی ضرورت ہے جو اس طبعی وجودیت کے قفس کے قفل کو توڑدے جس میں انسانی تخیّل مقیّد ہے اور ایک عقلی اور شفّاف نقطۂ نظر سے کائنات، وجودیت اور خدا کو جانے۔ اس کے لیے سائنسی طریقہ کار اپنانا ہوگا کہ مفروضات hypothesis کا سہارا لے کر علم اورعقل کی کسوٹی پر ان کو پرکھاجائے۔ آئیں ہم غور کرتے ہیں کہ کیا وجودیت اور زندگی خود بھی مخلوق ہیں؟
زندگی کی ساخت: Fabric of Life
وجود زندگی سے ہے اور زندگی کی ساخت ایٹم اور خلیے سے ہے۔ایک نکتہ یہ بھی مدّنظر رہے کہ ہر عنصر کی اکائی ( ایٹم) ایک پس پردہ فطرت اور جبلّت کی خوگر ہوتی ہے۔آکسیجن اگر آگ جلاتی ہے تو کاربن اسے بجھاتی ہے۔ یہ ان کی جبلّت ہے۔ سائنس اسے خاصیّت یا property کہتی ہے۔ کسی بھی عنصر کی کارکردگی اس کی جبلّت کے طابع اور متعیّن حدود میں ہی ہوگی۔ منطقی طور پر کسی بھی زندگی کی حواسی اور شعوری صلاحیّت اس کو پروان چڑھانے والے بنیادی عوامل کی جبلّت کے رنگ میں ہی عیاں ہوگی۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اگر زندگی فوٹون سے ابھرتی ہے تو کیونکہ فوٹون غیرمرئی ہے اور اس کی جبلّت بے قراری ہے یعنی یہ ایک سیماب صفت اکائی ہے جو بہت رفتار سے چلتی ہے تو اس سے متعلق زندگی بھی غیرمرئی اور برق سے زیادہ تیز رفتار ہوسکتی ہے۔ اسی طرح عناصر اور کائناتی قوتوں کی اکائیاں بھی اپنی جدا خاصیّتوں کے ساتھ موجود ہیں۔
خلوی زندگی:Cellular Life
سائنسی دریافتیں بتاتی ہیں کہ وجود میں آنے کے بعد کائنات رفتہ رفتہ ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی، پھر ایک وقت میں زمین پر حالات ایسے سازگار ہوئے کہ پانی میں ایٹم سے بنے خلیے سے زندگی پھوٹ پڑی جس میں طویل ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بقول سائنسداں انسان اپنے شعور کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔
سوال یہ ہے کہ زندگی کیا ہے؟
زندگی ایک فعّال اور بے چین معمّہ یا “چیز” ہے جو اپنے آپ کو خاص ماحول میں عیاں کرنے کی جبلّت رکھتی ہے۔ زندگی ایک آزاد اور کھلا راز ہے جو ہر طرح کے ماحول میں ابھرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ یہ ایک غیر مرئی سچّائی اور وقوعہ Phenomenon ہے جو موجود ہے۔
سائنس کے مطابق کائنات ایٹم سے بنی اور زندگی خَلیے cell میں شعور کا نام ہے۔
تو پھر شعور کیا ہے؟
شعور احساس زندگی ہے مگر سائنس کے مطابق شعور زندگی کی پہیلی کا ایک حصہ اور غیر حل شدہ عُقدہ ہے۔
اب سوال اٹھتے ہیں کہ:
کیا حیات صرف خلیات ہی میں محصور ہے؟
کیا حیات صرف اور صرف پانی سے ہی ابھر سکتی ہے؟
اجنبی حرارتی اورمقناطیسی زندگی: Alien Thermal & Magnetic Life
اب ایک دوسرا رخ بھی دیکھے۔ سائنس کے نظریے کے مطابق کائنات بگ بینگ سے وجود میں آئی۔ اس نظریے کا سادہ سا تجزیہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس ابتدائی وقت میں نہ صرف توانائی اور قوّتیں موجود تھیں بلکہ ہر طرح کے مادّے، اجرام فلکی اور ہر طرح کی حیات اور فطری قوانین بھی آپس میں ضم تھے۔ شروع میں ہر طرف آگ تھی جو ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اورجوں جوں کائنات پھیلی تو رفتہ رفتہ تمام چیزیں عیاں ہوتی گئیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس دوران زندگی کی سچّائی بھی ایک غیرمرئی صورت میں موجود رہی ہوگی اور مختلف ادوار میں قدرتاً مختلف صورتوں میں عیاں ہوئی ہوگی۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جس طرح عناصر خلیات بناتے ہیں اسی طرح کچھ مخصوص پارٹیکل یا قوّتیں مل کر ایسی چیز بناتے ہوں جس میں ایک بالکل جدا پیرائے کی حیات اور شعور ابھرتے یا ظاہر ہوتے ہوں! پانی سے پہلے کیا زندگی توانائی، قوّت اور حرارت کے پیرائے جیسے روشنی یا ثقل سے پیدا ہوکر کسی اجنبی شعور کے ساتھ ارتقاء پذیر نہ ہوئی ہوگی؟ ہم کس منطق یا علم کے تحت ایسی حیات کو مسترد کریں گے جو شاید کائنات کے کسی گوشے میں موجود بھی ہو۔
سوال یہ ہے کہ: ایسا کیوں نہیں ہوا ہوگا؟
کیونکہ زندگی موجودہ دور میں بھی زمین پر آتش فشانی ماحول میں ایک اچھوتے پیرائے میں خود کو ظاہر کر رہی ہے لہذٰا ثابت ہوتا ہے کہ زندگی میں خود کو آتشی ماحول میں عیاں کرنے کی قوّت ہمیشہ سے موجود ہے۔ ہماری زمین پر ہی سمندر کی گہرائی میں آتش فشانی وینٹ میں حالیہ دریافت شدہ ٹیوب وارم جو سورج کی روشنی کے بغیر زندہ ہیں اور توانائی حاصل کرنے کے لیے کیمیکل پر انحصار کرتے ہیں، ایک عجوبہ ہیں۔ یہ شعاع ِ ترکیبی photosynthesis کے بجائے کیمیا ترکیبی Chemosynthesis سے توانائی حاصل کرتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ گو کہ دونوں طریقوں میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی استعمال ہوتے ہیں لیکن کیمیا ترکیبی میں آکسیجن کے بجائے سلفر خارج ہوتی ہے۔
Instead of photosynthesis, vent ecosystems derive their energy from chemicals in a process called “chemosynthesis.” Both methods involve an energy source (1), carbon dioxide (2), and water to produce sugars (3). Photosynthesis gives off oxygen gas as a byproduct, while chemosynthesis produces sulfur.
http://science.nasa.gov/science-news/science-at-nasa/2001/ast13apr_1/
اس سے ہمارے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ کائنات میں حرارت اور روشنی سے مختلف حیات کاعیاں ہونا بعید از قیاس نہیں کیونکہ اِس وقت زمین پر معتدل حالات میں بھی مذکورہ بالا زندگی کاایک نئی طرز میں ظاہر ہونا زندگی کی اپنی طاقتور اور ہمہ جہت جبلّت اور وصف کا مظہر ہے۔ یعنی زندگی کا وقوعہ of Life Phenomenon مختلف ماحولیات میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ گویا یہ کثیر الجہت dimensional Multi ہے۔ ایک منطقی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اگر زندگی کی جہتیں ایک سے زیادہ ہوں گی تو وجود کی ماہیّت بھی مختلف ہوسکتی ہے کیونکہ ان کی آفرینش کے جبلّی پیرائے غیرطبعی اور عام انسانی حواس سے ماورا ہوں گے لہذا اس بنیاد پر پیدا ہونے والی زندگی بھی اپنے وجود کے حوالے سے انسان کے لیے نہ صرف غیرمرئی ہوگی بلکہ انسانی حواس سے ماورا ہوگی جیسے ثقل، مقناطیس، روشنی سے منسلک زندگی نامعلوم پیرائیوں میں موجود ہوسکتی ہے۔ وہ اپنے اپنے وجودی پیرائے میں زندہ ہوں گی اور اپنے اپنے شعوری اور عقلی دائرے میں علمی ارتقاء کی طرف گامزن بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی انسان ہی اپنے علم کے تئیں کائناتی زندگی کی ابتدا کو پانی تک محدود سمجھتا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔
مشترک اور مختلف جبلّت : Common & Diverse Intrinsic
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ زندگی کے لیے مانوس ماحول ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پیدا ہوا تو اور دوسرے عناصر کے ملاپ سے کیوں نہ پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ دو عناصر ایک ایسی چیز بناتے ہیں جس کی جبلّت سے زندگی کی مختلف جہتوں میں سے کوئی ایک جہت مانوس یا ہم آہنگ Compatable ہے جس کی وجہ سے حیوانی زندگی پانی میں نمودار ہوئی۔ ہم اس لیے اس زندگی کو بآسانی پہچانتے ہیں کہ زندگی اور ہمارے ذہن و دماغ ایک ہی مشترک خلوی منبع cellular origin سے ابھری ہیں اور یہ فطری اور جبلّی طور پر آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ اسی طرح جب تخلیقی جبلّت مختلف ہوگی تو کسی غیر عنصر یا توانائی وحرارت سے متعلّق زندگی کا ادراک جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے ہمارے ذہن اور حواس سے ماوراء ہوگا اور وہ ہمارے لیے معدوم اور “بے وجود ” ہی رہے گی۔ اس کا منطقی اور اصولی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر نامعلوم پیرائے کی زندگی ہمارے لیے طبعی طور پر معدوم رہے گی۔
شعورکی قسمیں : Forms of Conciousness
اسی کرۂ ارض پر خلیات پر مبنی حیات جانور، پرند، حشرات الارض، درختوں اور پھولوں کی شکل میں بھی موجود ہے جو شعور کے حامل ہیں اور جوڑے pairs بھی رکھتے ہیں، گویا خلوی حیات کے کئی متوازی نظام ہمارے سامنے رواں دواں ہیں مگر اس کے باوجود ابھی انسان ان کے شعور اور آپس کے روابط کی حقیقت نہیں جان پایا جس سے انسان کی کم علمی بھی عیاں ہے۔ ثابت یہی ہوتا ہے کہ جب خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور کی لا تعداد قسمیں ہمارے سامنے ہیں تو غیر خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور اور وجود بعید از قیاس کیسے ہو سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے انسان کیوں کسی اجنبی پیرائے کی حیات کی تصدیق نہیں کر پاتا؟
وجود کا دائمی ذہنی ادراک: Constant Mental Perception of Existense
اگر زندگی کسی توانائی مثلاً فوٹون Photon سے آشکارا یا نمودار ہو تو کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ:
اس کے شعور کے پیرامیٹر کیا ہوں گے؟
اس کے حواس کس طرز کے ہوں گے؟
اس کی قوتوں کے پیرائے کیا ہوں گے؟
اُس طرزِحیات کے ارتقاء کے مراحل کیسے ہوں گے اور اس کی عقل اگر ہوئی تواس کی ماہیّت کیا ہوگی؟
یقینا ہم یہ نہیں جان سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجود کے حوالے سے ہمارے تصوّر اور تخیّل کے پیرائے ہماری اساس یعنی خلوی حیات cellular life سے نتھی یا منسلک ہیں، ہمارے ذہن میں وجود کا متعیّن ادراک فطری طور پر طبعی ہے۔ ہم کبھی بھی کسی اجنبی وجودیت یا اجنبی زندگی کے حقیقی پیرائے Alien Life Parameters کو اپنے تخیّل کے فطری خلوی پیرائے Cellular Thought Parameters Natural میں رہتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ یہ آپس میں مانوس اور ہم آہنگ compatible نہیں ہیں۔ اسی اساسی خلوی جبلّت کے پرتو ہمارے ذہن میں وجودیت ایک خاص طبعی پیرائے میں اس سختی سے ثبت ہے کہ یہ ادراک perception اب ایک جنّیاتی ورثے Genetic Heritage کی طرح ہر خاص و عام کا مستقل ذہنی وصف بن چکا ہے۔ تمام انسان بشمول اسکالر اور سائنسداں اپنے اطراف کے پُراثر طبعی ماحول کے پیدائشی اور مستقل اسیر ہوتے ہیں اور وجود اور عمل سے منسلک خیالات اور احساسات بھی خلوی شعور کے زیر اثر ایک خاص طبعی تاثر کے آفاقی دائرے میں گردش کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے لیے کسی اجنبی پیرائے میں زندگی کا وجود ذہناً ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ اپنے شعور اور عقل کے با وصف ہم یہ نتیجہ تو اخذ کرسکتے ہیں کہ زندگی مختلف نہج Dimensions میں ظاہر ہوسکتی ہے یا ہوئی ہے لیکن جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے کیونکہ ہم اپنے تجربات، عقل اور علم کی روشنی میں کسی غیر خلوی حیات کی نمو پذیری کی تصدیق نہیں کر پاتے، اسی لیے ہم اس کو اپنی عقل کے پرتو مسترد کرتے رہے ہیں۔
خلوی شعور کے حوالے سے یہ واضح رہے کہ آگ سے ابھرنے والی زندگی اور اس کے شعوری پیرائے آتشی ہی ہوں گے، اسی طرح برقی جبلّت سے آشکارا یا نموپذیر زندگی کا شعور بھی برقی شعور ہی کہلائےگا کیونکہ اس کی اساس برقی ہوگی جبکہ روشنی کے پیرامیٹر کی زندگی کا شعور شُعاعی ہوگا۔ ایسی کسی حیات یا وجود کی طبعی یا سائنسی تصدیق فی الوقت ممکن نہیں بلکہ ان کی قبولیت ایمانیات اور عقائد کے زیر اثر ہی ہو سکتی ہے۔
وجودیت کے پیرائے : Parameters of Existence
اس بحث سے صرف یہ اخذ کرنا تھا کہ ہم جسے وجود کہتے ہیں، وہ ایک مخصوص احساس یا تاثر ہے جو ہمیں کسی ایسی ہستی یا چیز کا ادراک دیتا ہے جس کا تعلّق کسی یکساں، مختلف یا منفردحیات سے ہوسکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ کائنات میں موجود مختلف عناصر اور توانائیوں میں حیات کے ابھرنے کے مواقع منطقی بنیاد پر دور از کار نہیں۔ گویا وجود مختلف دائروں میں مختلف جہتوں میں جلوہ گر ہو سکتا ہے۔ اس طرح وجود کے ایک دائرے میں رہائش پذیر حیات دوسرے دائرے کی حیات سے جدا خصوصیت کی حامل ہوگی۔ ان کا آپس میں ربط ان کے بنیادی اجزاء کی باہمی ہم آہنگی پر منحصر ہوگا۔
ہم نے ابھی یہ سمجھا کہ موجود ہونے کے بہت سے پیرائے یا رنگ ہو سکتے ہیں اور یہ مختلف دائروں میں عیاں ہو سکتے ہیں۔ کائنات اور خود انسانی تمدّن میں جاری نظم ایک آفاقی حقیقت ہے، اس کے بموجب یہ قیاس کرنا منطقی ہوگا کہ وجود یا موجود ہونے کے کائناتی نظام پر حاوی کوئی نظام ہوسکتا ہے جو وجودیت کو مختلف پیرائے اور رنگ دینے کی صلاحیّت رکھتا ہو ورنہ مختلف طبعئی حیات کا ہونا غیر حقیقی ہو جائے گا۔ اب اگر ایسا ہے تو یقیناً وہ حیات یانظم یا قوّت، جس نے وجود کے دائرے تخلیق کیے، وہ یقیناً تمام موجود کائناتی حیات سے انتہائی جدا اور برتر ہوگی۔ اسی نے انسان کو ایک ذہنی قید خانے محصور کر رکھا ہے۔
جب ہم ایک وائرلیس ریموٹ کے ذریعے بہت دور سے کسی مشین کو کنٹرول کرتے ہیں تو بظاہر کوئی واسطہ نظر نہیں آتا لیکن درحقیقت وہ مشین ایک نہ نظر آنے والے نظام سے منسلک ہوتی ہے۔ ایک لا علم کے لیے یہ ایک عجوبہ یا Baffle ہوگا جبکہ جاننے والوں کے لیے یہ ایک مربوط نظام ہے۔ بالکل اسی طرح انسان اطراف میں مخفی نظام ہائے کائنات کی ہیئت سمجھنے میں مشغول تو ہے لیکن مکمّل نظم System کو ابھی تک سمجھنے سے قاصر اور حقیقی کائناتی نظام سے بہت حد تک لاعلم ایک مخلوق ہے۔ مختصراً، اگر کائنات ایک تخلیق ہے تو اس میں موجود زندگی بھی ایک تخلیق ہی ہے اور انسان کے شعور کے بموجب وجودیت بھی ایک غیرمرئی مخلوق ہوئی الّا یہ کہ جدید علوم عملی طور پر Practically یہ ثابت کردیں کہ عدم سے وجود یا نیست سے ہست things from nothing خود بخود کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اچانک کائناتی تخلیق spontaneous creation میں زندگی اور شعور کا عیاں ہونا بھی ایک ناقابل تشریح عجوبہ ہی ہے۔
وجود خدا کی حقیقت: Reality of Existence of God
وجود ایک ذہنی تاثر ہے جس کی وجہ سے ہم موجود ہونے کو ہی وجود گردانتے ہیں کیونکہ ہماری نموپذیری شعور کے احساس وجود میں ہوتی ہے۔ خدا ایک ایسی ہستی ہے جس نے یہ نظام تخلیق کردیا جس میں موجود ہونے کا شعور ہی زندگی کہلایا۔ ہمارا خلوی شعور وجود کا ایک فطری طبعی تاثر ہمارے ذہن میں تخلیق کیے رہتا ہے۔ انسان خدا کو سمجھنے کی کوشش وجود اور عدم وجود یا حاضر اور غائب کے اُنھی طبعی پیرایوں میں کرتا ہے جو خلوی شعور کے بموجب مستقل فطری تاثر بن چکے ہیں۔ یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا؟ تجسّس میں اسی فطری تاثر سے اٹھتا ہے اور انسان خدا کو بھی اپنی طرح کی زندگی اور وجود کا خوگر سمجھتے ہوئے جاننے کی کوشش کرتا ہے جو کہ خداکے حوالے سے ایک غیر حقیقی تصوّر illusion ہے۔ خدا یقیناً ایک زندہ ہستی ہے لیکن اس ہستی کا پیرایہ کیا ہوگا اُس کو انسان اپنی عقل کی خلوی ساخت Cellular Based Wisdom کی وجہ سے سمجھنے کا مکلّف ہی نہیں ہے۔
دیکھیے بجلی یا برق Electric کی ساخت کی بھی ایک جبلّت ہے جس کو قابو کر کے انسان نے کمپیوٹر اور روبوٹ بنا کر ان کو مصنوعی زندگی اور مصنوعی عقل دی۔ جس طرح انسان کے تخلیق کردہ الیکٹرانک ماحول میں مقیّد کوئی سپر روبوٹ بھی اپنی برقی Electronic جبلّت کی محدودیت اور نامانوس جبلّی ساخت کی وجہ سے خلوی زندگی Cellular life کے پیرائے نہیں سمجھ سکتا بلکہ اس کی رمق تک بھی نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح انسان خدا کو طبعی اور خلوی پیرایوں میں مقیّد رہ کرشاید کبھی نہ سمجھ پائے۔ ریڈار ایک مصنوعی “حواس” کا خوگر نظام ہے کہ اس سے خارج ہونے والے سگنل کسی جسم سے ٹکرا کر اس کا الیکٹرونک تاثر لے کر واپس آتے ہیں اور اس کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اسٹیلتھ تکنیک Stealth Technology اس کو غیر مئوثر کردیتی ہے۔ یعنی اگر چار جہاز اُڑتے آرہے ہیں اور ان میں ایک اسٹیلتھ ساخت کا ہے تو ریڈار صرف تین جہاز دکھائے گا۔ اسٹیلتھ نظام سے آراستہ کوئی جسم اس کو نظر نہیں آئے گا۔ گویا جہاز، ایک ٹھوس جسم کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے لیکن ایک مقیّد ماحول یعنی ریڈار کے کنٹرول روم، یعنی کسی خاص پیرائے میں موجود سے معدوم ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال انسان کے حواس اور تخیّلات کے بموجب خدا کے وجود کی ہے کہ انسان سب کچھ دیکھ سکتا لیکن خدا کو نہیں کیونکہ کائنات کا ماحول اسی ریڈار کے کنٹرول روم کی طرح ہے جس میں انسان اپنے حواس کے طابع ہر چیز کا شعور حاصل کرسکتا ہے جبکہ خدا کسی نامعلوم اسٹیلتھ جیسے پیرائے میں رہ کر ہر چیز پر حاوی ہے۔ اگر خدا اس طبعی ماحول سے کسی ایسے پیرائے میں بھی منسلک ہوتا جس کا فی الوقت انسان کو علم ہے توانسان اب تک خدا کے وجود کا پیرایہ جاننے کی طرف پیش قدمی کر چکا ہوتا۔ در حقیقت میٹافزکس جوں جوں فزکس میں ضم ہوتی رہے گی، خدا کو سائنسی طور پر قبول کرنے کے مواقع اتنے ہی بڑھیں گے۔
منکرین کے مخمصے : Confusion of Nonbeleivers
الحاد دراصل کائنات اور وجود کی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں سوچتے ہوئے انسانی ذہن کا مخمصہ ہے اور بس! کیونکہ کوئی بھی بڑے سے بڑا منکرخدا خواہ وہ کوئی عظیم اسکالر یاسائنسدان ہی کیوں نہ ہو، آج بھی کائنات اور زندگی کے عجوبے کی تشریح خدا کو خارج کر کے نہیں کرسکا۔ ان کے پاس نہ زندگی اور شعور کی سائنسی وضاحت ہے اور نہ ہی انسانی جذبات و خیالات کے اجراء کی توضیح ہے۔ علم، عقل اور منطق کے سہارے سائنسی نظریات کا دفاع کرتے ہوئے جہاں بےبس ہوجاتے ہیں تو کچھ اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ یہ ایک حیران کن مسٹری ہے جس کا پتہ کبھی چل جائے گا۔ سائنس کی محدودیت اس بات سے ہی عیاں ہے کہ یہ صرف ان سوالات کا جواب دیتی ہے جو کیا اور کیسے سے شروع ہوتے ہیں اور بہت سے انتہائی ضروری ‘کیوں’ سے شروع ہونے والے سوالات کا جواب نہیں دے سکتی بلکہ لفظ کیوں اس کی لغت سے ہی خارج ہے۔
سائنس آج بھی جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکتی ان میں سے چند یہ ہیں۔
کائنات عدم سے خود بخود کیسے ظاہر ہوئی؟ کائنات کیوں بنی؟
بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ کائنات میں ہر جگہ ایک نظم کیسے ہے؟ اور کیوں ہے؟
زمین کے ہر گوشے میں پیدا ہونے والی زندگی اپنے گروپ میں یکساں اور آفاقی جبلّت کیوں رکھتی ہے؟
بےپایاں علوم بھی کیا بگ بینگ سے قبل موجود تھے؟ ان کا منبع کیا ہے؟
زندگی کیا ہے اور کیوں ہے؟ شعور کیا ہے اور کیوں ہے؟
اچھے برے خیالات کا اجراء کہاں سے اور کیوں ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
جدید علوم خدا کا متبادل پیش کرنے میں کھلے ناکام ہیں اسی لیے ہراسکالر، فلاسفر اور ہر دہریہ کسی بھی مباحثے میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتا ملے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اپنی محدودیت کی وجہ سے انسان کی صرف خادم بن سکتی ہے رہنمانہیں۔
ان گزارشات سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ خدا کے ناقد عقلی، منطقی اور سائنسی طور پر کسی حد تک یہ جان چکے ہوں گے کہ موجودہ فزیکل پیرایوں میں یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا، غیر متعلّق Irrelevant ہو جاتا ہے۔ اس کے بجائے جو سوالات ابھرتے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
انسان کیوں ہے؟ کیسے بنا ؟ کس نے بنایا؟
ذرا سوچیے!
(خدائی سرگوشیاں سے ماخوذ)

खुदा क इंकार और जदीद साइंस ( science, atheism and creator ) उर्दू


کیا واقعی جدید سائنس منکرِخدا ہوسکتی ہے؟



.
الحاد،سائنس اور خالق: Science, Atheism & Creator
دہریت درحقیقت کسی مضطرب ذہن کی ہٹ دھرمی اور ضد ہے ۔ جدید دور کے بڑے سائنسدان بھی الحاد کی قطار میں فکری شش و پنج کی وجہ سے ہیں۔ خدا سے انکار کسی بھی شخص کا ذاتی نظریہ ہی ہوتا ہے مگرجب کوئی عالم یا ماہر طبعیات اپنی علمی حیثیت میں اس کا اظہار کرتا ہے تو ایک تاثّر یہ بنتا ہے کہ اس کا علم بھی اس کی تائید کرتا ہوگا۔ یہ بات قابل ِذکر ہے کہ سائنس کا دائرہ کار میٹا فزکس نہیں ہے لیکن پھر بھی جدید اسکالر خدا کو بھی طبعی پیرایوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جدید دور میں اکثرسائنسدان خدا کے وجود کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ سائنس خدا کی منکر ہے، اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لادین طبقہ سائنسی نظریات کا سہارا لے کر لادینیت اور دہریت کی ترویج کرتا ہے اور یہ غلط تاثر پھیلا تا ہے کہ سائنس خدا یا اللہ کی منکر ہے۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی جدید سائنس منکر ِ خدا ہو سکتی ہے؟
جدید سائنسدانوں اور اسکالرز کا نقطہ نظر یہ ہے کہ آپ جو چاہے نظریہ رکھیں مگر اس کے سچّا ہونے کا دعویٰ نہ کریں کیونکہ جو دعویٰ تجربے سے ثابت نہ ہو وہ سائنسی طور پر غلط False ہے۔ یعنی آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو رکھیں، یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے لیکن اس کے سچ ہونے پر اصرار نہ کریں کیونکہ سائنس کے نظریات اورتجربات اس کی تائید نہیں کرتے۔ اکثر لادین دوست اپنی تحاریر میں ایسا ہی تاثر دیتے ہیں۔ اس طرح کی دلیل کے حوالے سے پہلے تو یہ تعیّن کرنا ہوگا کہ آیا سائنسی علوم اور ان کے حدود کار کی بنیاد پر یہ دلیل دی بھی جاسکتی ہے یا نہیں۔ سائنس بذات خود کوئی علم نہیں بلکہ طبعی دنیا کے ہر شعبے کے علوم کی عقلی اور تجرباتی بنیاد پر تصدیق ہی سائنس کہلاتی ہے۔ آئیے خدا کے حوالے سے مندرجہ بالا نقطۂ نظر کو عام فہمی یا کامن سینس سے دیکھتے ہیں کہ آیا یہ خود کتنا سائنسی، منطقی اور عقلی ہے۔
سوال یہ ہے کہ: ہم کسی مخصوص شخص کو کیسے پہچانتے ہیں؟
انسان کے دو رخ ہیں؛ ایک طبعی اوردوسرا تصورّاتی، جسمانی رخ کو طبعی طور پر ہم اپنے حواس سے محسوس کر لیتے ہیں جبکہ شخصیت person بمع نام یعنی مسٹر ایکس ایک غیر مرئی abstract ہے جس کو ہمارا شعور جو خود غیر مرئی ہے، ایک تصوّر کی شکل میں قبول کرتا ہے۔ اس طرح ہمارے حواس اور شعور مل کر ایک مخصوص شخص کو پہچانتے ہیں۔ کیا سائنسدان کوئی ایسا طریقہ دریافت کر پائے ہیں جو کسی انسان کی شخصیت کا تعّیّن کر سکے یا اس کا نام بتا سکے؟
یہ بات یقیناً دلچسپ ہے کہ جدید ترین سائنسی تجربات بھی کسی انسان کی شخصیت کی تصدیق نہیں کرسکتے۔ شخصیت کی کھوج میں کسی بھی سائنسی ٹیسٹ یا سائنسی تلاش میں ایک انسان کو محض خلیاتی انبار یا جنّیاتی مجموعہ یا a-bunch-of-molecules یا group-of-DNA ہی بتایا جائےگا۔ انسان کے حوالے سے کوئی بھی میڈیکل ٹیسٹ ایک مطلوبہ معلومات تو دیتا ہے لیکن یہ بتانے سے قاصر ہوتا ہے کہ یہ کس شخص سے متعلّق ہے۔ یہاں پر یہ انسان ہی ہوتا ہے جو رپورٹ پر نام لکھ کر متعلّقہ شخص سے منسوب کرتا ہے۔یعنی مسٹراسٹیون ہاکنگ Stephen-Hawking جو ببانگ دہل ایک بڑے دہریہ سائنسدان ہیں، ان کے اس دعویٰ کی تصدیق کوئی بھی سائنسی تجربہ نہیں کرسکتا کہ وہ اسٹیون ہاکنگ ہیں! ایک اور بڑے خدا کے منکر جناب رچرڈ ڈاکنز Richard-Dawkins چاہے کتنی کوشش کر ڈالیں، ان کی ممدوح سائنس ان کو بحیثیت مسٹر ڈاکنز پہچاننے سے ہمیشہ عاری رہے گی!
سوال یہ ہے کہ:
اگر ان کے بحیثیت ایک خاص انسان (Specific-Person) موجودگی کے دعویٰ کی تصدیق کرنے سے سائنس قاصر ہے تو کیا ان کا وجود نہیں ہے؟
ہر طرح کے سائنسی ٹیسٹ میں یہ دونوں ایک شخصیت کی حیثیت سے معدوم ہیں لیکن حقیقتاً موجود ہیں جس کی تصدیق انسان کے حواس اور شعور کرتے ہیں۔
یہیں پر آ کر جدید سائنس کی حدود کا حقیقی تعیّن ہوتا ہے جو محض طبعی ہیں۔
تخلیق کے مدارج : Phases of The Creation
بنانے یا تخلیق کے تین مدارج ہوتے ہیں، ارادہ، عمل یا تخلیق اور ظہور۔ کسی بھی انسانی ایجاد یا تخلیق کا مطالعہ کریں یہ تین مرحلے لازماً موجود ہوں گے۔
تخیّل یا ارادہ طبعی تخلیقی مراحل یعنی عمل سے گزر کر ہی ایک مکمّل شے کی صورت میں عیاں ہوتا ہے۔
سائنس:
کسی کار کو دیکھ کر ہم اس کے تخلیقی مراحل کو نہیں جان سکتے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہوگی۔ اس کے پرزے پرزے کو جدا کرکے اور ان کی اندرونی ماہیت کو جان کر ہی ہم اس کی مینو فکچرنگ تکنیک کو سمجھ سکیں گے۔ یہی کاوش سائنس کہلاتی ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ اس تمام پیداواری مراحل کے بارے میں سب کچھ جان کر بھی ہم اس کار کے تخلیق کار manufacturer کی شخصیت کو نہیں جان پائیں گے۔ اس کے لیے ایک دوسرا طریق کار اختیار کرنا ہوگا۔ اس طرح واضح ہوا کہ دو باتیں ہوتی ہیں ایک انسانی عمل اور دوسرا اس کا حاصل۔ عمل غیر مرئی اور ناقابل پیمائش ہے اس کی کوئی شکل نہیں ہوتی لیکن اس کا حاصل قابل گرفتِ حواس ہے یعنی انسان کسی عمل کی نہیں بلکہ اس کے نتیجے کی پیمائش کر سکتا ہے۔
عمل اور نتیجہ:
انسان ایک دعویٰ کرتا ہے کہ میرا نام الف ہے تو اس کے اطراف موجود انسان اس کا دعویٰ اس لیے قبول کرتے ہیں کہ انسانی شعور طبعی حواس کی مدد سے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ انسانوں کا یہ دعویٰ قبول کرنا ہی اس شخص کے بحیثیت الف موجود ہونے کی دلیل بنتا ہے۔ حواس صرف اطّلاعات دیتے ہیں اور انسانی شعور عقل کے تناظر میں فیصلہ کرتا ہے۔ اس طرح یہ واضح ہوا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، جیسے کسی کار کے مینو فیکچرر، یا کسی فن پارے کی تخلیق کرنے والے مصوّر یاکسی ڈرامہ نویس کی کسی بھی جدید سائنسی ٹیسٹ سے تصدیق نہیں ہو سکتی بلکہ صرف اور صرف انسانی شعور ہی اس تصدیق کی قدرت رکھتا ہے یعنی سائنس انسان کی صرف ایک طبعی و حیاتی نظام physical/biological-system کی حیثیت سے ہی تصدیق کرسکتی ہے۔ اب بتائیے کہ جو علوم سامنے موجود انسان کی شخصیت کو نہ پہچان سکیں نہ تصدیق endorse کرسکیں یا ایک تخلیق کے محرّک Initiator کی نشان دہی تک نہ کرسکیں تو ان کا محدود ہونا تو ثابت ہوگیا۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ انسانی شعور ہی ہے جو حاصل کردہ علوم کی بنیاد پر دوسرے انسان کی شخصیت اور اس سے وابستہ کسی عمل کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ سائنسی.
علوم!
اب جدیدسائنس کے تجربات کو خدا کی پہچان کے لیے استعمال کرنا کتنا عقلی ہے، خود فیصلہ کرلیجے۔ گویا واضح ہوا کہ سائنس کا دائرہ کار کسی بھی چیز یا تخلیق کو پا کر اس کی تخلیقی ماہیّت، اس کے پیداواری یا ارتقائی مراحل اور منبع origin کو جاننا ہے یعنی تخلیق کے مذکورہ بالا تین میں سے آخر کے دو مراحل، جو عمل اور اس کا نتیجہ یا طبعی اظہار ہیں جبکہ اس سے قبل کا مرحلہ یعنی تخلیق کار Inventor/creator یا ارادے کے مآخذ کی نشاندہی میں صرف انسانی عقل اور موجود معلومات available-information کام آتی ہیں کہ کون ایسی صلاحیّت، علم، قوّت اور وسائل رکھتا ہے کہ یہ کار بنا سکے یا کوئی مخصوص کام کرسکے۔
خدا کی تصدیق:
بالکل اسی طرح انسان حاصل علوم سے اپنی خرد اور دانش سے ہی خالق کائنات یعنی خدا یا اللہ تعالیٰ کے وجود کی تصدیق کرسکتا ہے۔ یہی ایمان کہلاتا ہے اور یہ عقل و شعور سے حقائق کی پرکھ کے بعد بالکل خالص ذاتی فیصلہ ہوتا ہے سائنسی نہیں۔ اسی طرح اللہ کا انکار کسی انسان کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے جو اس کا شعور متعیّن کرتا ہے۔
ایک بات واضح رہے کہ انسان خدا کو خود ہی تلاش نہیں کرتا بلکہ یہ خدا ہے جو کہ انسانوں کا خالق ہونے کا اعلان کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں تمہارا خالق ہوں، پھر انسان اپنی عقل و خرد اور علوم کی گواہی سے ہی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ خدا کا دعویٰ اس کی طرف سے انسانی واسطے سے پیغام اور حیرت انگیز تحریر text کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، ایسی تحریر جس کا مصنّف ہونے کا کوئی بھی انسان دعوٰی نہیں کرتا۔
کیا سائنس کسی بھی کتاب کے مصنّف کا نام بتا سکتی ہے؟
سائنسی علوم صرف ایک محدود دائرے میں ہی انسان کی رہنمائی کرسکتے ہیں اور سائنس کے حوالے سے خدا کی تلاش یا اس بارے میں لب کشائی نہ سائنس اور نہ ہی سائنسدانوں کا کام ہے۔ سائنس محض علمی اوزار کا صندوق toolkit ہے ! یعنی سائنسی علوم محض وسائل اور ذریعہ ہیں جو معلومات مہیّا کرتے ہیں اوربس!
تو کسی سائنس دان کا دعویٰ کہ وہ خدا پر یقین نہیں رکھتا اس کا ذاتی خیال ہوتا ہے، اس کا بہ حیثیت مجموعی سائنس کی دریافتوں اور سائنسی ٹیسٹ کے نتائج سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ایسا تاثّر دیتا ہے تو وہ حقائق کے برعکس ہے بلکہ دروغ گوئی ہے، معذرت کے ساتھ۔
سائنسی علوم تمام انسانیت کی میراث ہیں اور کسی بھی انسان کو ان سے فائدہ اٹھانے یا دلیل حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی ماہر علم یا ماہر طبعیات کو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ جدید سائنسدان کائنات کی ابتدا، تخلیق اور اس کے مراحل کے حوالے سے جتنی بھی تحقیق کریں اور اس کی سائنسی توجیہات پیش کریں، وہ بجا طور پر سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہیں لیکن جس لمحے یہ سائنسدان ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس نے کائنات نہیں بنائی ـ وہیں سے ان کی عقلیں بےراہرو ہو کر سائنس کے حدود کار سے باہر چلی جاتی ہیں۔
مختصراً یہ واضح ہوا کہ جدید ترین سائنسی علوم ، دریافتیں اور سائنسدان جو کسی میڈیکل ٹیسٹ، طبعی تخلیق، آرٹ کے فن پارے اور کسی کتاب سے متعلق انسان کا تعیّن اور تصدیق نہ کر سکیں بھلا وہ کائنات کے خالق یعنی اللہ کی تصدیق کرنے کے اہل کیسے ہوسکتے ہیں؟
ذرا سوچیں!
(خدائی سرگوشیاں اور جدید نظریاتی اشکال سے اقتباس)