GOD ( SCIENTIFIC PROOFS) - 4 PART

خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر میرے مضمون کے پہلے حصے پر ملحد عزازی ہاشم کے اعتراضات اور ان کا جواب
(حصہ اول)

**********************************************
محترم عزازی صاحب فرماتے ہیں کہ 
 ////گو کہ ملاحدہ سمجھتے ہیں کہ خدا کے بارے میں اوپر بیان کی گیی تعریفات اصل میں انسان کی اپنی ہی بنائی ہوئی تعریفات ہیں لیکن پھر بھی بات کو آگے بڑھانے کی نیت سے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں خدا نے اپنی یہ خصوصیت خود اپنے بارے میں بیان کی ہیں .. درج بالا چار تعریفات کے ساتھ ہم کچھ اور تعریفات بھی شامل کر لیتے ہیں جو درحقیقت انسان نے اور گمانی طور پر خدا نے اپنے بارے میں اپنی سو کالڈ کتاب قران میں کہی ہیں - 
خدا کہتا ہے کہ :
اسکی کوئی مثل نہیں ، یعنی اس جیسا کوئی نہیں 
خدا کہتا ہے کہ وہ نہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو پیدا کیا ہے 
خدا کہتا ہے کہ اسے بھوک نہیں لگتی 
خدا کہتا ہے کہ اسے نیند نہیں آتی ، اونگھ نہیں آتی .
خدا کہتا ہے کہ اسے کوئی نقصان نہیں پنہچا سکتا .
 اب ہم چار خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان خصوصیات کو بھی مدنظر رکھیں گے اور اگر کسی جگہ احید صاحب کے خدا کے وجود کے سائنسی استدلال میں یہ خصوصیات غلط ہوتی ہوئی نظر آئیں تو ہم توقع کرتے ہیں کہ احید حسن صاحب اور دوسرے مومنین اپنے موقف کو غلط قبول کر لیں گے .////
 شکر ہے عزازی صاحب نے خدا کی ذات کی صفات کو خدا کے وجود پر بحث کے لیے تسلیم کر لیا۔پہلی رات محترم مسلسل انکار کیے جارہے تھے کہ میں تو خدا کو مانتا نہیں،خدا کی صفات کو کیسے مانوں۔تو محترم شکر ہے اب خود ہی وجود کی بحث کے لیے صفات پر بحث کے قائل ہوگئے۔کیوں کہ وجود کا بیادن صفات سے ہوتا ہے اور صفات وجود سے الگ نہیں کی جاسکتی۔یہ صفات ایک طرح کی نشانی ہیں جس سے کسی وجود کا پتہ چلایا جاتا ہے۔امید ہے اب عزازی صاحب دوبارہ یہ بات نہیں کریں گے کہ میں تو موجود نہیں مانتا صفات کیسے مانوں کیوں کہ اب وہ خود وجود کے ثبوت کے لیے صفات کا بیان لازمی کر چکے ہیں اور اسی پر بات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔یعنی یہ بات ان کی بے بسی ظاہر کر رہی ہے کہ کسی بھی وجود کے بیان کے لیے صفات کا بیان لازمی ہے۔پہلے والی بحث کا ایک نقطہ تو عزازی صاحب نے ماں ہی لیا۔امید ہے اب بوکھلاہٹ میں اس کا پھر انکار نہیں کریں گے۔اب اگر ہم خدا کی ان ساری صفات کو ثابت کردیں تو عزازی صاحب خدا کا وجود مان لیں گے۔
 عزازی صاحب نے خدا کے لیے نیند نہ آنے،اونگھ نہ آنے،بھوک نہ لگنے کے ثبوت کی بات کی ہے۔اصل میں یہاں عزازی نے خدا کی ذات کو انسان اور دیگر جانداروں پر متحمل کیا ہے۔یہاں عزازی صاحب ایک انتہائ سنجیدہ منطقی غلطی کر رہے ہیں۔ان کی نظر میں اگر اللٰہ تعالٰی کو نیند نہیں آتی،اونگھ نہیں آتی بھوک نہیں لگتی تو اس کا بھی ثبوت ہونا چاہیے۔میں ان کی اس بات کے سائنسی و منطقی دونوں جواب دوں گا۔منطقی جواب یہ ہے کہ خدا کی ذات کو اس کی مخلوق کی طرح سمجھ کر اسے بھی نیند،بھوک، کا پابند سمجھ کر اس کا ثبوت مانگنا ہی غلط ہے۔کیوں کہ خدا اپنی مخلوق کی طرح مجبور ہو نہیں سکتا۔اور جو ان ضروریات کا پابند ہو وہ خدا ہی نہیں ہوسکتا جب کہ خدا مخلوق کی طرح ان ضروریات کا محتاج ہی نہیں اور اس کا ان چیزوں کا محتاج نہ ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خدا ہے۔عزازی صاحب کی ساری منطق ہی غلط ہے۔
اور کیا عزازی صاحب یہ کہ سکتے ہیں کہ کسی کو  مسلسل کام کرنے کے لیے نیند بھوک کی ضرورت ہے۔کیا یہ کمزوری کائنات کی ہر چیز کی ہے۔سورج دو ارب سال سے روشن ہے۔سورج نے کبھی کہ دیا ہو کہ او دنیا والو مجھے بھوک لگ رہی ہے میں کھانا کھانے جا رہا ہوں۔تم جانو اور تمہارا کام۔یا کبھی سورج نے یہ کیا ہو کہ مجھے نیند آرہی ہے۔آج میری روشنی نہیں ہوگئ کیوں کہ میں روشنی دے دے کر تھک گیا ہوں۔یا کبھی الیکٹران نے کہا ہو کہ کیا عذاب ہے میں کائنات کی تخلیق سے اب تک نیوکلیئس کے گرر گھوم رہا ہوں اور اب مجھے بھوک لگی ہے اور میں کھانا کھانے جا رہا ہوں یا سونے جا رہا ہوں۔یہ چیزیں یعنی سورج الیکٹران مخلوق ہیں اور کئ ارب سال سے بغیر نیند کیے بغیر کھائے اس کام میں لگے ہوئے ہیں جو ان کے خالق نے ان کے ذمے لگایا تو خدا جو ان سب کا خالق ہے اور ان کو اور پوری کائنات کو کنٹرول کر رہا ہے وہ کیسے تھک سکتا ہے یا سو سکتا ہے۔محترم آپ کی ساری منطق ہی غلط ہے
https://www.merriam-webster.com/dictionary/god پر خدا کی ذات کی تعریف پڑھ لیجیے 
the supreme or ultimate reality,
the Being perfect in power, wisdom, and goodness who is worshipped as creator and ruler of the universe
 اس کے مطابق خدا ایک حتمی سچائ اور عظیم ترین طاقت کا نام ہے جو اپنی طاقت و حکمت میں ہر طرح سے مکمل ہو۔
 تو محترم جو خدا نیند،اونگھ،بھوک کا پابند ہوا وہ خدا کیسے ہوا۔وہ تو خدا ہو ہی نہیں سکتا لیکن آپ نے گمان کیا کہ خدا اگر ان صفات سے پاک ہے تو اس کا ثبوت ہو۔میں نے منطق سے بھی ثبوت دیا اور سائنس سے بھی۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ 
 /////محترم احید صاحب اس دلیل میں یہ استدلال فرماتے ہیں کہ اگر کوئی چیز موجود نہ ہو اور مکمل طور پر پوشیدہ ہو تو اسکی تعریف متعین نہیں کی جا سکتی اور چونکہ خدا کی تعریف متعین کی جا رہی ہے اسلئے خدا کا وجود بھی ہے اور وہ مکمل طور پر پوشیدہ بھی نہیں ہے .. یعنی یہ دعوی ہو گیا کہ خدا وجود بھی رکھتا ہے اور وہ مکمل طور پر پوشیدہ بھی نہیں ہے .... میری دلیل منطقی بھی ہے اور سائنسی بھی کہ کوئی بھی چیز جو وجود رکھتی ہے وہ زمان و مکان کے اندر واقع ہے اور زمان و مکان سے باہر نہیں نکل سکتی ، وجود کو ماپا جا سکتا ہے ، اسکی کمیت معلوم کی جاسکتی ہے ، اگر خدا وجود رکھتا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ وہ ماپا جاسکتا ہے اور اپنی ہی تخلیق زمان و مکان کے اندر مقید ہے اس سے نکل نہیں سکتا اور یہ خدا کے مجبور و محکوم ہونے کی دلیل و نشانی ہے گویا اس سے اوپر والی ایک تعریف ساقط ہو جاتی ہے کہ وہ سب سے زیادہ طاقتور ہے . دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ وہ مکمل طور پر پوشیدہ نہیں ہے . سو اگر وہ پوشیدہ نہیں ہے تو اسکے وجود کا وہ حصہ جو پوشیدہ نہیں ہے اسکی بابت دلائل دیں ( یاد رہے اس کومنٹ میں ہمارا مقدمہ خدا کا وجود ہے ، اسکی صفت یا خصوصیت نہیں ہے ) سو خدا کے وجود کا وہ حصہ جو پوشیدہ نہیں ہے اسکی بابت شواہد و دلائل درکار ہیں .////
 اس بات میں عزازی صاحب نے منطق پیش کی ہے کہ خدا اپنے وجود کے لیے زمان و مکان یعنی ٹائم اینڈ سپیس کا پابند ہے۔لہذا جو پابند ہوا وہ خدا کیسے ہوا۔سبحان اللٰہ۔عزازی صاحب نے مجھے کوئ دودھ پیتا بچہ سمجھ لیا ہے اور اپنے فلسفے کا فیڈر میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ بچے یہ فیڈر پیو اور سو جاؤ۔
تو محترم جو وجود یعنی خدا اپ­نا وجود برقرار رکھ سک­تا ہے  کیا وہ اپنے وج­ود کے لیے ایک جگہ پید­ا نہیں کر سکتا؟اگر یہ­ وجود یعنی خدا نہ ہوت­ا تو اس کی پیدا کی گئ­ جگہ کیسے موجود ہوتی۔­جگہ کا بیان وجود کے ل­یے ہوتا ہے۔جہاں کوئ و­جود ہی نہ ہو وہ جگہ ج­گہ کیسے کہلائے گی۔پھر­ اب کیا مطلق و حتمی ہ­وا؟جگہ یا جگہ کا پیدا­ کرنے والا وجود یعنی ­خدا؟ظاہر ہے جس وجود ک­ے بغیر جگہ کا بیان مم­کن نہیں اور جس کے وجو­د کے لیے اس کی موجودگ­ی کے مکان کو جگہ کا ن­ام دیا جاتا ہے وہ وجو­د ہی حتمی ہوگا نہ کہ ­جگہ جس کی اس وجود کے ­بغیر کوئ حیثیت نہیں۔ا­گر یہ وجود نہ ہوتا تو­ جگہ تھی ہی بے معنی ۔­جگہ کا تو لفظ ہی ایک ­موجود یعنی خدا کا محت­اج ہے۔اور اگر یہ وجود­ نہ ہوتا تو جگہ یعنی ­کائنات کیسے پیدا ہوتی­۔ظاہر ہوا کہ جگہ حتمی­ یا مطلق نہیں بلکہ جگ­ہ کا وجود بذات خود ای­ک وجود یعنی خدا کا مح­تاج ہے جس کی موجودگی ­سے اس مقام یعنی کائنا­ت کو جگہ کا نام دیا گ­یا۔جگہ بذات خود کچھ ن­ہیں بلکہ یہ ایک وجود ­یعنی خدا کی پیدا کردہ­ اور اپنے بیان کے لیے­ اس کے وجود کی محتاج ­ہے۔
 کیا آپ نے آئن سٹائن ­کا نظریہ اضافت یا تھی­وری آف ریلیٹویٹی پڑھی­ ہے؟اس کے مطابق زمان ­و مکان حتمی یا absolu­te نہیں بلکہ فرضی یا ­relative ہیں جو محض ا­یک وجود کے بیان اور ا­س کی کائنات میں سرگرم­ی کو استعمال کرنے کے ­لیے استعمال کیے جاتے ­ہیں۔اب پہلے وجود آیا ­یعنی خدا پھر اس خدا ک­ے بیان اور اس کی تخلی­ق کردہ کائنات کے لیے ­مکان یعنی space اور ا­س کی اس کائنات میں سر­گرمی کو ظاہر کرنے کے ­لیے زمان یعنی وقت کا ­لفظ استعمال کیا گیا۔ا­ب اگر یہ وجود یعنی خد­ا نہ ہوتا تو زمان و م­کان یعنی ٹائم اینڈ سپ­یس بھی نہ ہوتے۔کیونکہ­ یہ تو محض ایک وجود ک­ے بیان کے الفاظ ہیں۔ب­ذات خود ان کا بیان ای­ک وجود کا محتاج ہے۔لہ­ذا جو پہلے آیا جس کی ­موجودگی اس زمان و مکا­ن کے بیان کی وجہ بنی ­وہی خدا حتمی و مطلق ہ­ے نہ کہ یہ زمان و مکا­ن۔
 جب وجود یعنی خدا نہ ­ہو تو زمان یعنی وقت ی­ا ٹائم رفع ہوگا کیونک­ہ یہ زمان یا وقت تو م­حض ایک وجود یعنی خدا ­کی کائنات میں سرگرمی ­کو بیان کرتا ہے اور ا­س وجود کے نہ ہونے سے ­مکان بھی رفع ہوگا کیو­نکہ یہ مکان یا جگہ مح­ض ایک موجود کی موجودگ­ی کا بیان کرتا ہے۔یہ ­الفاظ یعنی زمان و مکا­ن بذات خود اپنے بیان ­کے لیے ایک موجود کے م­حتاج ہیں۔لہذا وہ وجود­ یعنی خدا ہی واجب الو­جود ہوا نہ کہ زمان و ­مکان جو کہ محض اس وجو­د کے بیان کے لیے ہیں ­اور اس وجود یعنی خدا ­کے بغیر وہ ہوتے ہی نہ­۔خود آئن سٹائن کی تھی­وری آف ریلیٹویٹی کا ن­ظریہ اضافت کے مطابق ز­مان و مکان یعنی ٹائم ­اینڈ سپیس اضافہ و فرض­ی ہیں لیکن حتمی و مطل­ق یعنی absolute نہیں۔­پھر زمان و مکان کیسے واجب الوجود ہوگئے جب ­کہ فلسفہ سے زیادہ مست­ند علم یعنی فزکس خود ­تصدیق کر رہی ہے کہ زم­ان و مکان یا ٹائم این­ڈ سپیس اضافی یا relat­ive ہیں۔تو اب جب یہ زمان و مکان حتمی ہیں ہی نہیں بلکہ کائنات کی تخلیق کے ساتھ پیدا کیے گئے جب کہ خدا پہلے سے موجود تھا تو اب سائنس کے مطابق یہ زمان و مکان آپ کے اور میرے وجود کے لیے حتمی نہیں تو خدا کے وجود کے لیے کیسے حتمی ہوگئے۔یہ زمان و مکان خالق کی مخلوق ہیں اور خالق مخلوق کا پابند نہیں ہوتا۔
عزازی صاحب کہتے ہیں کہ خدا پوشیدہ نہیں ہے تو اس کے وجود کو دکھایا جائے۔محترم خدا عقل والوں کے لیے پوشیدہ نہیں ہے۔خدا کی کائنات خدا کے وجود کا ثبوت ہے کہ اس کا خالق کوئ ہے اور جب ہماری بات آگے چلے گی تو ثابت ہوجائے گا کہ اس وجود کے کتنے زیادہ دلائل ہیں
خدا کی نشانیاں ہمارے اوپر نیچے آگے پیچھے مشرق مغرب شمال جنوب ہر طرف ہے۔محترم آنکھ بند ہونے سے پہلے آنکھ کھول لیجیے۔کائنات خود اس کا وجود ثابت کر دے گی جیسا کہ میں آگے اپنی بحث میں مزید دلائل پیش کروں گا۔
محترم عزازی صاحب آگے لکھتے ہیں کہ 
 //////میرا انکی دلیل سے یہ اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی چیز پوشیدہ تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ نہیں ہے ...... لیکن وہ اس وقت تک مستند طور پر قابل قبول بھی نہیں ہوتی جب تک ثابت نہ ہو جاے ...اسکی مثال میں ایسے دونگا کہ اگر کوئی سائنسدان آج یہ دعوی کر دے کہ کوارک سے بھی چھوٹے بیس مختلف قسم کے ذرات ہیں جو پوشیدہ ہیں تو اسکا یہ دعوی اس وقت تک قبولیت عامہ کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اسکو تجربات و شواہد سے ثابت نہ کر دے سو اگر خدا کا وجود ہے تو وہ اس وقت تک ایک توہم کی ہی حثیت میں رہے گا جب تک شواہد و تجربات کی مدد سے ثابت نہیں ہو جاتا ... ویسے انکی اطلاعا کے لیے عرض ہے کہ الیکٹران ، وائرس وغیرہ تجربات و مشاہدے کی مدد سے ثابت شدہ ہیں بلکہ انکی ہیت اور اسٹرکچر تک دریافت ہونے کے بعد بنایا جا چکا ہے اور اسکو ایک انسان سے زیادہ انسان بھی متعلقہ تعلیم حاصل کر کے جانچ سکتے ہیں .. انکی مثال اس طرح سے نہیں ہے کہ ایک نبی کے علاوہ اور کوئی خدا کو نہیں دیکھ سکتا -////
 محترم پریشان نہ ہوں خدا کی ذات کا وجود سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے۔اگر میں ثابت کر دوں کہ سائنس نے خدا کا وجود ثابت کر دیا تو آپ مان لیں گے؟اب میں ثابت کر رہا ہوں۔آپ کے کہنے کے مطابق مشاہدے کی سائنسی دلیل دے رہا ہوں۔اب آپ ماننے کے پابند ہیں۔کیوں کہ آپ نے خود دلیل مانی۔اب یہ پڑھیں خدا کی ذات کے ثابت ہونے کا سائنسی بیان
 سائنس نے براہ راست خدا کا وجود ثابت کر دیا۔ملحدین کے لیے شرم کامقام ۔مسلمانوں کو مبارکباد۔یہ پڑھیں

God has been proven to exist based upon the most reserved view of the known laws of physics. For much more on that, see the below article, which details physicist and mathematician Prof. Frank J. Tipler's Omega Point cosmology and the Feynman-DeWitt-Weinberg quantum gravity/Standard Model Theory of Everything (TOE) correctly describing and unifying all the forces in physics. The Omega Point cosmology demonstrates that the known laws of physics (viz., the Second Law of Thermodynamics, General Relativity, and Quantum Mechanics) require that the universe end in the Omega Point: the final cosmological singularity and state of infinite computational capacity having all the unique properties traditionally claimed for God, and of which is a different aspect of the Big Bang initial singularity, i.e., the first cause.
https://archive.org/…/GodProvenToExistAccordingToMainstream…
اب حوالہ بھی دے دیا۔اور کیا چاہیے محترم
اب یہ عالمی شہرت یافتہ ایک نوبل انعام رکھنے والے جاپانی سائنسدان میچیو کاکو  کا خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر بیان۔
One of the most respected physicists, Dr. Mitchio Kaku, recently said he has found proof that God exists by using primitive semi–radius tachyons showing us living in space created by an intelligence. 
What Dr. Kaku said
There are the major statementss:
“I have concluded that we are in a world made by rules created by an intelligence”, he affirmed. “Believe me, everything that we call chance today won’t make sense anymore.“
“To me it is clear that we exists in a plan which is governed by rules that were created, shaped by a universal intelligence and not by chance.”
"God is a very intelligent mathematician."
"God's way of thinking can be compared to Music."
https://steemit.com/…/scientist-michio-kaku-says-he-found-d…
 
اب تو دنیا کے ایک عظیم سائنسدان نے بھی خدا کا وجود مان لیا اور سائنس سے ثابت کر دیا۔آپ بھی مان لیحیے۔آپ نے ثبوت کہا اور وہ آپ کو دے دیا گیا۔اب آپ ماننے کے پابند ہیں جو آپ نے طے کیا۔اب آپ امید ہے اپنی بات سے نہیں پھریں گے ان شاء اللہ


خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر میرے مضمون پر ملحد عزازی ہاشم کے اعتراضات اور ان کا جواب
(حصہ دوم)

************************************************
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ 
 /////اس دلیل میں محترم احید صاحب خدا کے ہونے کی یہ دلیل پیش کر رہے ہیں کہ ایک مفروضہ مستقبل میں درست ثابت ہو گیا سو اسلئے خدا ہے ..... یعنی بیوقوفی کی حد ہی ہو گییی ہے کہ اگر کوئی مفروضہ درست ثابت ہو گیا ہے تو خدا ہے .. میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی مفروضہ جیسا کہ ہوتا ہے درست ثابت نہ ہو تو کیا اس سے یہ دلیل لی جاے کہ خدا نہیں ہے ؟ یعنی اگر میں سائنس کی تاریخ کو کھنگال کر ایسے مفروضات پیش کر دیتا ہوں جو مستقبل میں غلط ثابت ہوے تو کیا احید اپنی ہی بنائی ہوی دلیل کی بنیاد پر تسلیم کر لیں گے کہ خدا نہیں ہے ؟ پھر آنحضرت فرماتے ہیں کہ جیسے ہم بجلی کو نہیں دیکھ سکتے لیکن اسکی خصوصیات پرکھ سکتے ہیں ... شاید انکا کبھی بارش میں بجلی گرتے دیکھنے کا مشاہدہ نہیں ہوا وگرنہ وہ ضرور بجلی کو دیکھ لیتے ... دوسری بجلی وہ ہے جو ہم گھروں میں استعمال کرتے ہیں ، اسکے بارے میں ان سے عرض ہے کہ کسی الیکٹریشن کے پاس تشریف لے جائیں اور اس سے کہیں کہ دو تاروں کو آپس میں ٹچ کر کے دکھائیں ، مجھے قوی یقین ہے کہ وہ اس بجلی کو بھی دیکھ لیں گے - اس سے قطعہ نظر ان سے یہ بھی گزارش ہے کہ اشیاء کی معرفت صرف حس بصارت سے ہی حاصل نہیں کی جاتی بلکہ حس بصارت کے علاوہ دوسری حسیات کی مدد سے بھی اشیاء کی پہچان ہو جاتی ہے جیسا کہ انسان نے مختلف ڈوایسز کی مدد سے الیکٹران ، نیوٹران ، پروٹان کو دریافت کیا یا بیکٹیریا جو ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتے انکو خوردبین کی مدد سے دیکھتا ہے - پھر فرماتے ہیں کہ جیسے ہم ذہانت کو نہیں دیکھتے لیک­ن اسے باپ سکتے ہیں . عرض ہے کہ ذہانت کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ایک صلاحیت ہے جیسا کہ دیکھنا ایک صلاحیت ہے ، سننا ایک صلاحیت ہے ، سونگھنا ایک صلاحیت ہے وغیرہ وغیرہ ، سو صلاحیت کو اسکے فعل کے ما بعد از وقوع ہونے والے نتائج سے پہچانا جاتا ہے - پھر فرماتے ہیں کہ می­را دعوی ہے اسی طرح ہم­ خدا کے وجود کو مان ک­ے اس کی خصوصیات کو بھ­ی ثابت کر سکتے ہیں - اس سلسلے میں عرض ہے کہ وہ سائنس سائنس کا رونا تو روتے ہیں لیکن کسی چیز کو ثابت کرنے کے سائنسی طریقہ کار سے اتنا ہی ناواقف ہیں جتنا ایک جانور ... سائنسی طریقہ کار یہ نہیں ہوتا کہ پہلے میری بات مان لو پھر میں اسکو خصوصیت سے ثابت کروں گا - سائنسدان اپنے نظریے ، تھیوری کے حق میں شواہد و مشاہدات پیش کرتا ہے ، کیلکولیشن پیش کرتا ہے ، اسکو تجربہ کر کے دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے اور اگر وہ شواہد خلاف عقل نہ ہوں تو دوسرے سائنسدان اسکو تسلیم کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ... اس سلسلے میں انسے عرض ہے کہ بڑھکیں تو وہ سائنس کی لگاتے ہیں تو طریقہ کار بھی سائنسی اختیار کریں .////
 محترم یہاں آپ ایک سائنسی مفروضے کو خدا کی ذات پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جناب آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ خدا ہماری نظر میں تو کبھی مفروضہ تھا ہی نہیں۔صرف سائنس کی نظر میں تھا۔لیکن اب سائنس نے مشاہدات سے ثابت کر دیا۔عظیم سائنسدان میکو کاکو نے بھی مان لیا اور اوپر خدا کی ذات کے سائنسی طور پر ثابت ہونے کا سائنسی حوالہ بھی دے دیا تو اب یہ بات ایک سائنسی مفروضے سے بڑھ کر ایک حقیقت بن چکی ہے۔جسے دنیا کے عظیم سائنسدان جیسا کہ میچیو کاکو اور ہاکنگ نے بھی مان لیا۔اب آپ بھی مان لیجئے۔اب تو یہ بات مفروضے سے آگے بڑھ گئ جس کے مزید سائنسی دلائل سامنے آرہے ہیں تو اب انکار کیسا محترم۔محترم آپ نے مان لیا کہ اشیاء کی حقیقت حواس خمسہ سے حاصل ہوتی ہے۔اب اسی حواس خمسہ سے ملنے والا علم یعنی سائنس خدا کے وجود کا ثبوت دے رہا ہے۔لہذا اب انکار نہ کیجئے بلکہ مان لیجئے۔آپ نے سائنسی طریقۂ کار اختیار کرنے کی بات کی۔میں نے آپ کی پسند کا طریقہ اختیار کر کے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل کے پکے حوالے دے دیے تو اب انکار کیسا۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
 /////یقینا احید صاحب جانتے ہونگے کہ سائندان جب بھی کوئی دعوی کرتے ہیں تو اسکے پیچھے برسوں کی تحقیق و تجربات اور ان سے حاصل شدہ نتائج ہوتے ہیں . کوئی سائنسدان اس وقت تک کوئی تھیوری پیش نہیں کرتا جب تک وہ اسکو ثابت کرنے کے حوالے سے مواد اکٹھا نہیں کر لیتا .... یقینا اگر جرمینیم کے متعلق دعوی کیا گیا تو اسکے پیچھے ایک تحقیقی کام پر مشتمل کافی مواد ہوگا تبھی وہ سچ ثابت ہوا ... آپ جرمینیم کے دعوے کے سچا ثابت ہونے سے خدا کو ثابت کرنے کی دلیل پیش کر رہے ہیں ، ویسے اگر کوئی سائنسدان کوئی دعوی کر دے اور وہ بعد میں غلط ثابت ہو جاے تو کیا آپ اس کو بطور دلیل قبول کریں گے کہ خدا نہیں ہے ؟ تاکہ میں سائندانوں کے ایسے دعوے آپ کے سامنے پیش کر سکوں جو غلط ثابت ہوے ////
 محترم جن برسوں کی سائنسی تحقیق کی آپ بات کر رہے ہیں،صرف برسوں کی نہیں بلکہ صدیوں کی سائنسی تحقیق بلکہ سائنس کی تین ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار سائنس نے خدا کی ذات کے سائنسی ثبوت پیش کر دیے۔اب سائنسی مواد بھی اکٹھا ہوگیا وجود بھی مان لیا گیا۔چند نہ ماننے والوں کی ضد سے سائنسی دلائل غلط نہیں ہوجائیں گے محترم۔اب غلط ثابت ہونے والی بات ہی گئ۔دوسو سال سے سائنسدان خدا کا انکار کرتے چلے آرہے تھے۔اب دوسو سال بعد پھر سائنس آہستہ آہستہ ملحد سے مومن ہورہی ہے۔جس کے سائنسی ثبوت میں نے اوپر پیش کیے۔اب سائنس ریورس گیر لگارہی ہے۔ڈارون مردہ ہوچکا۔اب سائنس اسی طرف واپس جارہی ہے کہ اس کائنات میں ایک عالمگیر ذہانت اور حتمی حقیقت موجود ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا۔محترم اب آپ بھی مان لیجئے
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں
/////میں دو دن مسلسل ورنر ہیزنبرگ کا Uncertainty Principlee سٹڈی کرتا رہا ہوں - پہلے دن پوری تفصیل سے نیٹ کو چھانا لیکن مجھے کہیں نہیں ملا کہ اس نے کہا ہو کہ تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں ، پھر دوسرے دن نیٹ کو کھنگالا کہ ہو سکتا ہے مجھ سے چوک ہو گیی ہو لیکن ورنر ہیزنبرگ کے حوالے سے کہیں ایسا لکھا ہوا نہیں ملا کہ تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں جیسا کہ احید حسن صاحب فرماتے ہیں - حوالے کے طور پر Uncertainty Principle کا لنک اور اسکی ہسٹری درج ہے 
میری محترم احید صاحب سے درج ذیل گزارشات ہیں :
 اے : ہو سکتا ہے مجھ سے تلاش کرنے میں چوک ہو گییی ہو اسلئے مجھے وہ لنک فراہم کر دیں جہاں ورنر ہیزنبرگ نے کہا ہے کہ تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں -
 بی : چونکہ احید صاحب اس نامعلوم قوت کو خدا کہتے ہیں اسلئے مجھے وہ لنک فراہم کر دیں جہاں ورنر ہیزنبرگ نے اس نامعلوم قوت کو خدا مانا ہو 
 سی : احید صاحب اس نامعلوم قوت اور الیکٹران کے حوالے سے اپنے موقف کی وضاحت فرما دیں کہ کیا وہ اس نامعلوم قوت کو اور الیکٹران کو علیحدہ علیحدہ وجود مانتے ہیں ؟////
 محترم اگر آپ کو پتہ ہو تو وارن ہیزنبرگ نے اس نظریے کے دو بنیادی نکات پیش کیے تھے۔یعنی ایک ہی وقت میں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا ٹھیک طرح سے تعین نہیں کیا جاسکتا۔اس نے unobservable quantities پر کوئ بات نہیں کی بلکہ سائنسدانوں سے گزارش کی کہ وہ اس کے نظریے کو وسعت دیں اور حرکت کے Fourier components پر اس نظریے کے مطابق مزید بات کریں اور اس کے اس نظریے کو وسعت دیں۔اس نے Δx and Δp یعنی الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کی تبدیلی کی بھی مکمل تعریف نہیں بیان کی۔اس نے صرف Gaussian states کا تعلق بیان کیا۔اس کے اس نظریے کو Kennard نامی ایک سائنسدان نے ثابت کیا اور اس کے نظریے کی مساوات پیش کی۔اس طرح اس نے اس نظریے کے بنیادی نکات پیش کیے اور وقت کے ساتھ اس پر مزید تحقیق کی گئ کہ آخر کیوں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا ایک ہی وقت میں تعین نہیں کیا جاسکتا۔اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ ایک نامعلوم قوت الیکٹران پر ہمہ وقت اثر انداز ہوتی ہے اور الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا تعین ٹھیک طرح سے نہیں کرنے دیتی اور یہ بات نکولس گیسن کے تجربات نے ثابت کردی کہ ایک غیر پیدا شدہ طویل فاصلوں پر مبنی پر اسرار قوت کوانٹم ایونٹس میں موجود ہوتی ہے۔یہ پڑھیں
 The twin-photon experiment by Dr. Nicolas Gisin of the University of Geneva and his colleagues last month was the most spectacular demonstration yet of the mysterious long-range connections that exist between quantum events, connections created from nothing at all, which in theory can reach instantaneously from one end of the universe to the other.
 اب وہ کونسی نامعلوم قوت ہے جو مخلتف مقامات پر موجود تمام کوانٹم اجسام یعنی فوٹان الیکٹران اور دیگر پر پوری کائنات میں اثر انداز ہورہی ہے جو نامعلوم،دائمی اور وقت کی پابندی سے آزاد ہے۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ کائنات میں موجود ایک نامعلوم قوت مختلف مقامات پر موجود اجسام پر ایک ہی وقت میں اثر انداز ہورہی ہے جو کہ خدا کی قدرت اور اس کے کائنات پر کنٹرول کی نشانی ہے۔خواہ خدا کا نام نہ ماننے والے لوگ اسے خدا کی قدرت کہیں خواہ نہ کہیں لیکن یہ سائنسی تصور براہ راست ایک عالمگیر قوت کے وجود کا ثبوت دے رہا ہے۔جو کہ تمام کوانٹم اجسام پر اثر انداز ہورہی ہے۔اس کا مطلب یہ کہ خدا اپنی قدرت کے ذریعے اپنی تخلیق یعنی تمام کوانٹم اجسام کو کنٹرول کر رہا ہے۔اور یہی وہ کوانٹم اجسام ہیں جن سے ہمارے وجود اور کائنات تخلیق کی گئ ہے۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
 /////احید صاحب کے دعوے کے مطابق جو کچھ انہوں نے مالکوم براون اور اسکی تھیوری میں اوپر بیان فرمایا ہے جب میں نے مالکوم براون اور اسکی بیان کردہ تھیوری کی جانچ پڑتال کے حوالے سے نیٹ کو کھنگالا تو جو کچھ مجھے مالکوم براون کے بارے میں معلوم ہوا اس نے مجھے ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دیا - احید صاحب ... سائنس کی مانو ، سائنس کی مانو ... کی رٹ لگاے ہوے ہیں لیکن مالکوم براون کون تھا آپ بھی اس کے بارے میں پڑھیے جو معلوم ہوا ہے - اسکا حوالہ بھی نیچے دیا ہوا ہے -
 Malcolm Wilde Browne (April 17, 1931 – August 27, 2012) was an American journalist and photographer. His best known work was the award-winning photograph of the self-immolation of Buddhist monk Thích Qung Đức in 1963.
 مجھے اندازہ ہے کہ اوپر مالکوم براون کے بارے میں پڑھ کر ملحد حضرات احید حسن صاحب کی دماغی کیفیت کے بارے میں کیا راے قائم کریں گے لیکن میں معصوم ذہن مومنین سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ احید حسن صاحب کی تحقیقی کاوش کے بارے میں ایماندارانہ راے قائم کریں جو ایک امیریکن جرنلسٹ اور فوٹوگرافر کو ایک سائنسدان کے طور پر پیش کر کے علمی بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں ....
 بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ آپ کو حیرانی ہو گی کہ مالکوم براون نے کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کہا جو احید حسن صاحب نے اسکا نام استعمال کر کے اوپر بیان کیا ہے ....
 گو کہ احید حسن صاحب یہ کلیم کرتے ہیں کہ یہ سب آرٹیکلز انکی اپنی تحقیقی کاوش ہیں لیکن میں گمان کرتا ہوں کہ کسی دوسرے کا مواد کاپی پیسٹ کرتے ہوے انہوں نے کوئی تحقیق نہیں کی کہ کیا وہ سب کچھ درست ہے جو ایک جرنلسٹ اور فوٹوگرافر سے منسوب کر کے بیان کیا جا رہا ہے ...
 میری انسے گزارش ہے کہ انہوں نے جو اوپر مالکوم براون کے حوالے سے بیان کیا ہے اسکا لنک فراہم کریں ...////
اس میں جملہ استعمال کیا گیا ہے کہمالکوم ڈبلیو براؤن کے­  in signal travel an­d faster than speed o­f light کی تحقیقات کے­ مطابق۔جس سے میرا مقصود یہ تھا کہ مالکوم ڈبلیو براؤن کے مضمون in signal travel an­d faster than speed o­f lightکی تحقیق کے مطابق لیکن عزازی صاحب بحث سائنس پر کرنے آئے ہیں اور انہوں نے اس بحث کی تحقیق اور اس مضمون کو نیٹ پر سرچ کرنے کی زحمت نہیں کی ورنہ یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔عزازی صاحب نے پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔مالکوم ڈبلیو براؤن محض ایک امریکی صحافی اور فوٹو گرافر نہیں تھا بلکہ ایک سائنسی بندہ بھی تھا جو کہ ایک کیمیا دان یا کیمسٹ اور ایک سائنسی مصنف بھی تھا اور یہ بات اسی لنک میں موجود ہے جس کو پیش کر کے عزازی صاحب لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں اور مجھ پر طنز کر رہے ہیں اور مومنین و ملحدین کو بھی مجھ پر طنز کرنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔عزازی صاحب کا ہی پیش کردہ لنک مالکوم ڈبلیو براؤن کے بارے میں کیا لکھ رہا ہے یہ پڑھیے۔
 Before becoming a journalist Browne worked as a chemist and in 1977, he became a science writer, serving as a senior editor for Discover.

https://en.m.wikipedia.org/wiki/Malcolm_Browne
 
یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ مالکوم ڈبلیو براؤن محض ایک صحافی اور فوٹو گرافر ہی نہیں تھا بلکہ ایک کیمسٹ اور سائنسی مصنف تھا جس نے signal travel an­d faster than speed o­f light نامی وہ مضمون لکھا جس سے میں نے ایک ایسی قوت کا حوالہ دیا جو کہ تمام کوانٹم اجسام یعنی وہ تمام اجسام جن سے کائنات اور ہم بنے ہیں،پر اثر انداز ہورہی ہے۔لیکن عزازی صاحب نے صرف اس مضمون کا پہلا پیرا گراف پڑھا اور اتنے خوش ہوئے کہ آگے پڑھنا ہی بھول گئے۔اب سادہ ذہن ملحدین اور پختہ ذہن مومنین عزازی صاحب کی سادگی اور سائنسی کم علمی پر بھرپور ہنسیں۔اب جس ریسرچ پر مالکوم نے یہ مضمون لکھا اس کا اصل حوالہ بھی پڑھ لیجئے
 In 2012, with colleagues, he proved that any possible explanation of quantum correlation based on some hidden influences possibly propagating at superluminal-but-finite speeds (in a preferred reference frame) would activate signaling.
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Nicolas_Gisin
 Quantum non-locality based on finite-speed causal influences leads to superluminal signalling, J-D. Bancal, S. Pironio, A. Acín, Y-C. Liang, V. Scarani and N. Gisin, Nature Physics 8, 867-870 (2012).
^  Quantum correlations in Newtonian space and time: arbitrarily fast communication or nonlocality, N. Gisin, in Quantum Theory: a two-time success story, Yakir Aharonov Festschrift, pp 185-204, Springer 2014
تاکہ ثابت ہوجائے کہ مالکوم ڈبلیو براؤن ایک فیس بکی دانشور نہیں تھا بلکہ ایک کیمیادان اور سائنسی مصنف تھا جو discover نامی ایک سائنسی تصنیفی معاملے کا سینئر ایڈیٹر تھا۔عزازی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر مضمون کاپی پیسٹ کر کے لکھا۔میرا خیال ہے اب تک میری کی جانے والی گفتگو سے اندازہ ہوچکا ہوگا کہ میں نے مضمون لکھا ہی نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اس کا دفاع بھی کر رہا ہوں الحمداللہ۔


خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر میرے مضمون پر ملحد عزازی ہاشم کے اعتراضات اور ان کا جواب
(حصہ سوم)

*****************************
محترم عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
 //محترم احید صاحب نے اپنے اس کومنٹ میں جو دعوے کیے ہیں ان میں سے پہلا دعوی یہ ہے کہ کوانٹم مکینکس کے مطابق الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں . چونکہ محترم احید صاحب نے یہ دعوی کوانٹم لیول پر کیا ہے سو میں انکے اس دعوے کو درج ذیل سائنسی دلیل کی بنیاد پر رد کرتا ہوں کہ کوانٹم لیول پر الیکٹران پوری کائنات میں ہر جگہ موجود نہیں ہیں ... 
دلیل : ہم تین ایلیمنٹس میں موجود شیلز اور الیکٹرانز کی تعداد کو دیکھتے ہیں ...
پہلا ایلیمنٹ ... کاپر ... ہے جس کے شیلز کی تعداد 44 ہے اور اسکے ایٹم میں موجود الیکٹرانز کی تعداد 29 ہے - کاپر کے چوتھے شیل میں الیکٹرانز کی تعداد 1 ہے -
دوسرا ایلیمنٹ ... سلور ... ہے جس کے شیلز کی تعداد 55 ہے اور اسکے ایٹم میں موجود الیکٹرانز کی تعداد 47 ہے - سلور کے چوتھے شیل میں الیکٹرانز کی تعداد 18 ہے -
تیسرا ایلیمنٹ ... گولڈ ... ہے جس کے شیلز کی تعداد 66 ہے اور اسکے ایٹم میں موجود الیکٹرانز کی تعداد 79 ہے - گولڈ کے چوتھے شیل میں الیکٹرانز کی تعداد 32 ہے -
 اب درج بالا سائنسی حقائق کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے کہ اگر الیکٹرانز کائنات میں ہر جگہ ہوتے تو ہر ایلیمنٹ کے ہر شیل میں الیکٹرانز کی تعداد یکساں ہوتی لیکن چوتھے شیل میں مختلف ایلیمنٹس کے الیکٹرانز کی تعداد مختلف ہے یعنی کاپر کے چوتھے شیل میں گولڈ کے 32 الیکٹرانز کے تناسب کے مطابق 32 کی بجاے 1 الیکٹران ہے دوسرے لفظوں میں کاپر کے چوتھے شیل میں 31 الیکٹران کی جگہ خالی ہے//
 اس ساری بحث میں عزازی صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ الیکٹران کائنات میں ہر جگہ موجود نہیں لہذا ان کو متاثر کرنے والی وہ اور بھی پوری کائنات میں موجود نہیں جس کو میں خدا کی نشانی کہ رہا ہوں۔ یہاں عزازی صاحب سائنسی غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔عزازی صاحب کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ فری الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں اور وہ وہاں موجود فوٹان ان کی جگہ تبدیل کر تے رہتے ہیں۔سائنس نہ صرف الیکٹران کی فری سپیس اور پوری کائنات میں موجودگی کی تصدیق کرتی ہے بلکہ ان کی ایک خاص حرکت Brownian motion بھی بیان کرتی ہے۔اس طرح الیکٹران کائنات میں دو صورتوں میں موجود ہیں۔ایک عناصر کے اندر اور دوسرے فری سپیس یعنی باقی کائنات کے اندر۔یہ پڑھیں ایک فزکس کے سائنسی مباحثے کی سائٹ کا حوالہ جس سے کچھ لائنیں دے رہا ہوں جس میں نہ صرف فری سپیس اور مادے دونوں میں الیکٹران کی موجودگی کی تصدیق کی جا رہی ہے بلکہ ان پر فوٹان کے اثرات اور ان کی حرکت بھی بیان کی جارہی ہے
 In mainstream, free electrons are actually within solids. In space electrons are presumably spaced out by their charge (please pardon the pun) They are exposed to photons coming from all directions. QED theory says we consider all the possible probabilities of finding an electron and a photon in new positions in space time but simplistic view would be that if a collision occurs, the electron will gain momentum in the direction of the incoming photon and will have a real velocity and free path until it either gets hit by another photon or emits a photon. This would be a kind of Brownian motion of electrons in free space۔
electrons in solids arent free, just mostly free, and there are plenty of free electrons elsewhere. A free electron is one not part of an atom۔

https://forum.cosmoquest.org/showthread.php…
یہ جملہ خود وضاحت کر رہا ہے کہ الیکٹران  عزازی صاحب کی بیان کردہ منطق کے مطابق صرف ایٹم میں نہیں ہوتے بلکہ فری یا آزاد الیکٹران سپیس اور کائنات میں ہر جگہ موجود ہیں۔اس طرح اس حوالے نے عزازی صاحب کا الیکٹران کے پوری کائنات میں موجود نہ ہونے کا دعوی غلط ثابت کر دیا ہے۔مزید پڑھیں
Outer space is an even higher-quality vacuum, with the equivalent of just a few hydrogen atoms per cubic meter on average
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Vacuum
 
اس طرح یہ سب عناصر و ذرات خلا اور مادے دونوں میں ویکیوم انرجی کی ایک شکل یعنی گراؤنڈ سٹیٹ انرجی کے زیر اثر ہیں جو کہ ایک ایسی طاقت کی نشاندہی کرتی ہیں جس کا اثر کائنات کے ایک ایک ذرے پر ہے جو کہ خدا کی قدرت کی ایک نشانی ہے کہ اللٰہ تعالٰی کی قدرت ہر جگہ موجود ہے۔پہلے ملحدین نہیں مانتے تھے کہ ایسا خدا ہوسکتا ہے لیکن سائنس نے ثابت کر دیا کہ ایک ایسی طاقت موجود ہے جس کا اثر کائنات کے ہر ذرے پر ہے۔
گراؤنڈ سٹیٹ یا زیرو پوائنٹ انرجی ویکیوم انرجی کی ہی ایک قسم ہے جس کا اثر مادے کے تمام بنیادی ذرات اور اس طرح پوری کائنات کے تمام مادے پر ہے۔یہ پڑھیں
 Zero-point energy (ZPE) or ground state energy is the lowest possible energy that a quantum mechanical system may have, i.e. it is the energy of the system's ground state. Zero-point energy can have several different types of context, e.g. it may be the energy associated with the ground state of an atom, a subatomic particle or even the quantum vacuum itself.A vacuum can be viewed not as empty space but as the combination of all zero-point fields. In QFT this combination of fields is called the vacuum state, its associated zero-point energy is called the vacuum energy and the average expectation value of zero-point energy is called the vacuum expectation value
۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Zero-point_energy
 
اس بات نے ثابت کر دیا کہ ویکیوم انرجی کی ہی ایک قسم زیرو پوائنٹ انرجی ہے جو کہ پورے مادے پر اثر انداز ہورہی ہے اور کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔اب ویکیوم انرجی کے ہر جگہ ہونے کا سائنسی ثبوت پڑھیں
 Vacuum energy is an underlying background energy that exists in space throughout the entire Universe
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Vacuum_energy
 
اس سائنسی ثبوت کے مطابق ویکیوم انرجی پوری کائنات میں موجود ہے۔ایک ایسی توانائ کے کائنات میں ہر جگہ موجود ہونے کا سائنسی ثبوت جس کے کنٹرول میں کائنات کا ہر ذرہ ہے۔الیکٹران خلا میں ایٹم میں اپنی حرکت کے دوران جہاں بھی پہنچیں گے یہ توانائ وہاں پہلے سے موجود ہے۔خلا خواہ ایٹم کے مدار کا ہو جہاں الیکٹران گردش کے دوران ایک جگہ ہوتا ہے تو کبھی دوسری جگہ یا خلا سپیس کا ہو یہ توانائ ہر مقام پر ایٹم کے بنیادی ذرات کو متاثر کر رہی ہے۔لہذا الیکٹران اپنی گردش کے دوران مختلف مقامات تبدیل کر سکتا ہے لیکن یہ توانائ ہر جگہ موجود ہے اور جہاں بھی الیکتران حرکت کرتا ہوا پہنچے گا اسے متاثر کرے گی۔اس طرح ایٹم کا خلا ہو یا فری سپیس ہر جگہ یہ توانائ الیکٹران اور مادی ذرات پر اثر انداز ہورہی ہے۔
اس طرح عزازی صاحب کاسارا سائنسی استدلال غلط ثابت ہوتا ہے جس کے مطابق الیکٹران پوری کائنات میں موجود نہیں ہیں۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں
 //
محترم احید صاحب کے خدا کے ہونے کے سائنسی دلائل کی اس دلیل کو رد کرنے کی تیسری سائنسی دلیل یہ ہے کہ نہ تو سائنس الیکٹرانز کو خدا کہتی ہے اور نہ ہی ... الیکٹرک فورس ... کو خدا کہتی ہے ... اگر ایسا ہے تو ....
 
چونکہ احید صاحب کی پوسٹ کا عنوان خدا کے ہونے کے سائنسی دلائل ہے تو میری ان سے گزارش ہے کہ وہ مجھے کسی سائنسدان یا سائنسی فورم کا وہ لنک فراہم کر دیں جو الیکٹرانز اور الیکٹرک فورس کو خدا کہتی ہو ...
 
اور اگر ایسا نہیں ہے اور احید صاحب نے اس الیکٹرک فورس سے صرف منطقی طرز استدلال کیا ہے کہ چونکہ وہ قوت کائنات میں ہر جگہ موجود ہے اسلئے خدا کی صفات ہوتے ہوے خدا بھی ہر جگہ موجود ہے تو .... اسکا مطلب ہے کہ یہ سائنسی دلیل نہیں ہے بلکہ منطقی دلیل ہے ....اور یہ انکی پوسٹ کے عنوان سے یکسر الٹ ہے ....
 
اور اگر ایسا ہے تو معاف کیجئے گا .. محترم احید حسن صاحب نے بھی سائنسی حقائق و معلومات سے ایک منطقی استخراج اخذ کر کے وہی ٹول آف آرگومنٹ استعمال کیا ہے جو میں نے کیا تھا - اب میں اس بات کا فیصلہ محترم احید حسن صاحب پر چھوڑتا ہوں کہ انہوں نے جس ٹول آف آرگومنٹ پر میری ماں کا پچھواڑھ اور بہن کا اگواڑھ گنوایا تھا اب انکی ماں کا پچھواڑھ اور بہن کا اگواڑھ بھی گننا بنتا ہے کہ نہیں ؟ فیصلہ ان پر چھوڑ رہا ہوں ..//..۔
 
یہاں عزازی صاحب ایک بار پھر سائنسی غلطی کر رہے ہیں۔عزازی صاحب الیکٹران کو متاثر کرنے والی قوت کو الیکٹرک فورس کہ رہے ہیں جب کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ زیرو پوائنٹ انرجی جو کہ ویکیوم انرجی کی ہی ایک قسم ہے،تمام مادی ذرات کو ایک ہی وقت میں متاثر کر رہی ہے۔عزازی صاحب تو انرجی اور قوت کا فرق بھی نہیں جانتے سائنس کے مطابق۔
وہ ایک انرجی یعنی ویکیوم انرجی کو ایک فورس یعنی الیکٹرک فورس کے طور پر لے رہے ہیں جب کہ سائنس کے مطابق انرجی اور فورس دو الگ چیزیں ہیں۔نہ الیکٹران خدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی الیکٹرک فورس کیوں کہ یہ الیکٹران اور سب مادی ذرات ویکیوم انرجی میں ہونے والی کوانٹم فلکچویشن سے پیدا ہوئے اور جو پیدا ہوتا ہے وہ خدا نہیں ہوسکتا اور الیکٹرک فورس سائنس کے مطابق کسی کام پر منفی یا مثبت چارج کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور خود الیکٹرک فورس جس پروٹان اور الیکٹران سے پیدا ہوتی ہے وہ خود ویکیوم انرجی سے تخلیق کیے گئے۔اس طرح نہ ہی الیکٹران خدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی الیکٹرک فورس۔بلکہ وہ ویکیوم انرجی خدا کی ذات کی ایک نشانی ہے جس سے نہ صرف سائنس کے مطابق کائنات اور یہ سب فورسز تخلیق کی گئ بلکہ اب یہ توانائ پیدا کرنے کے بعد کائنات کو کنٹرول بھی کر رہی ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پوری کائنات میں ایک ایسی ہستی موجود ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا اور اب اسے کنٹرول کر رہی ہے۔یہی ویکیوم انرجی خدا کی ذات کی ایک قدرت اور صفت ہے اور صفت وجود کا پتہ دیتی ہے اور یہ ثابت کر رہی ہے کہ کائنات کی خالق و مالک ایسی ہستی موجود ہے جس کو ہم خدا کہتے ہیں اور سائنس نے اس کا وجود ثابت کر دیا۔اب سائنس کے کچھ ملحدین لوگ اس کو خدا کی نشانی مانیں یا نہ مانیں یہ واضح طور پر خدا کی ذات کا پتہ دے رہی ہے۔


میرے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر مضمون پر ملحد عزازی ہاشم کے اعتراضات اور ان کا جواب
(حصہ چہارم)

************************************************
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
 //اگر الیکٹرانز اور الیکٹرک فورس ہر جگہ موجود ہے اور خدا کی صفات ہوتے ہوے خدا بھی ہر جگہ موجود ہے تو اسکا مطلب ہے کہ یہ انسان میں بھی موجود ہے ...
اگر ایسا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ خدا کی صفات کو بھوک بھی لگتی ہے 
خدا کی صفات کو نیند بھی آتی ہے 
خدا کی صفات کو نقصان بھی پنھچتا ہے 
خدا کی صفات جنتی بھی ہے اور جنی بھی جاتی ہے 
 خدا کی صفات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور احید صاحب کا یہ دعوی غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ سب سے طاقتور ہے ...
 یہ مختصر سی خصوصیت بیان کی ہیں ، تفصیل میں جاؤں گا تو خدا کی صفات یا دوسرے لفظوں میں خدا ایسے ایسے ہوشربا کام کرتا ہوا نظر آئے گا جس پر مومنین کو بہت شرمندگی ہوگی .... اب خدا کی ان صفات کے افعال کی بنیاد پر آپ کو قران میں بہت ساری تبدیلیاں کرنی پڑیں گی جن سے ثابت ہو کہ خدا کی صفات کو نیند بھی آتی ہے اور بھوک بھی لگتی ہے وغیرہ وغیرہ ...
یہی دلائل تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ویکیوم انرجی پر بھی لاگو ہوتے ہیں ...//
 یہاں عزازی صاحب خدا کی تخلیق یعنی الیکٹران اور الیکٹرک فورس کو خدا کی صفت قرار دے رہے ہیں جب کہ الیکٹران ویکیوم انرجی سے پیدا کیے۔ گئے جو کہ خدا کی ذات کی ایک نشانی ہے اور الیکٹرک فورس ان الیکٹران سے۔اور جو مخلوق ہے وہ خالق نہیں ہوسکتی۔اس طرح نہ ہی الیکٹران خدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی الیکٹرک فورس۔الیکٹران ایک مادہ ہیں اور تمام زندہ مردہ اشیاء میں موجود اور یہ پیدا کیے گئے۔اس لیے خدا نہیں ہوسکتے اور نہ ہی خدا کی صفت بلکہ خدا کی تخلیق ہیں اور ان کو رکھنے والے ایک زندہ وجود کی ساری صفات یعنی نیند آنا،بھوک لگنا،بچے جننا کسی طرح بھی خالق کا مرتبہ کم نہیں کرتے کیوں کہ یہ تو خالق ہیں ہی نہیں بلکہ خالق کی مخلوق ہیں جو کہ ویکیوم انرجی سے پیدا کیے گئے۔اس طرح عزازی صاحب کی ساری منطق جو الیکٹران اور الیکٹرک فورس کو خدا اور خدا کی صفت قرار دے کر نعوذ بااللہ قرآن کو غلط قرار دینے کے لیے استعمال کی گئ ہے،یہ منطق ساری کی ساری غلط ہے خود سائنس کے مطابق۔کیونکہ نیند،بھوک،بچے جننا خالق کی اس مخلوق کی صفت ہے جو مادہ رکھتی ہے اور یہ خصوصیات رکھنے والا مادہ پیدا کیا گیا لہذا یہ خدا نہیں ہوسکتا۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
 //اگر وہ یہ مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی چیز بھی سائنسی موقف کے مطابق خدا نہیں ہے تو پھر قران کی اس آیت کو جھوٹا / غلط ماننا پڑے گا جس میں خدا کہتا ہے کہ اسکی مثل کوئی نہیں ....
ویکیوم انرجی ، الیکٹرانز یا الیکٹرک فورس کسی کو بھی خدا کی طرح فنا نہیں ہے ...
تینوں چیزیں خدا کی طرح ہر جگہ موجود ہیں ...
تینوں چیزیں خدا کی طرح وقت سے متاثر نہ ہونے والی ہیں 
تینوں چیزیں ہر جگہ موجود ہوتے ہوے سب کچھ جانتی ہیں ...
گویا خدا کے مقابلے میں اس جیسی خصوصیات رکھنے والی مزید چیزیں بھی ہیں ...//
 یہاں عزازی صاحب پھر سائنسی غلطی کر رہے ہیں۔الیکٹران خدا نہیں کیوں کہ یہ پیدا کیا گیا اور یہ خود ویکیوم انرجی کے زیر اثر ہے اور جو پیدا کیا جائے وہ خدا نہیں ہوسکتا،الیکٹرک فورس چونکہ الیکٹران کی وجہ سے ہے جو ویکیوم انرجی سے پیدا کیے گئے ہیں اس طرح ہی الیکٹرک فورس ایک وجہ یعنی الیکٹران پر منحصر ہونے کی وجہ سے خدا نہیں کیوں کہ خدا کسی پر منحصر نہیں ہوتا۔اب الیکٹران اور الیکٹرک فورس دونوں پیدا ہونے اور ویکیوم انرجی کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے خدا نہیں۔الیکٹران کا اثر ایک پروٹان ختم کر سکتا ہے الیکٹرک فورس کا اثر ایک مخالف سمت والی الیکٹرک فورس ختم کر سکتی ہے اور جس کا اثر فانی ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔قس طرح نہ الیکٹران خدا والی خصوصیات رکھتے ہیں اور نہ ہی الیکٹرک فورس۔باقی ویکیوم انرجی بچتی ہے جو کہ خدا کی ذات کا ثبوت پیش کر رہی ہے کہ ایسی ہستی کائنات میں موجود ہے جو ہمیشہ سے تھی کیوں کہ یہ ویکیوم انرجی کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے سے ہے،ہر جگہ موجود پوری کائنات اس کے زیر اثر کوئ اور چیز اس کے مثل نہیں لہذا یہ ویکیوم انرجی ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی صفات کا مثل کوئ نہیں۔
اور یہ ویکیوم انرجی سب سے پہلے موجود تھی،مادہ اس سے پیدا کیا گیا،اس کے زیر اثر تو کس طرح مادہ خود خدا ہوسکتا ہے۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
 //اگر احید صاحب کو یاد ہو تو میں نے پہلی پوسٹ جس میں ہماری بحث شروع ہوئی تھی میں کہا تھا کہ توانائی اور مادہ اصل میں ایک ہی چیز ہیں اور مادہ بھی توانائی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے..... 
 احید صاحب نے خدا کے ہونے کی جو اوپر سائنسی دلیل دی ہے یہ دراصل ملاحدہ کا نظریہ ہے کہ کائنات ازلی و ابدی ہے ... نہ یہ پیدا ہوئی ہے اور نہ ہی فنا ہوگی (سائنسی ثبوت یہ ہے کہ انرجی نہ پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی فنا ) - مادہ انرجی کی ہی ایک انتہائی مجتمع شکل ہے - ثبوت کے لیے درج ذیل لنک ملاحضہ کریں 
 ، کائنات تغیر پذیر ہے - مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ احید صاحب نے ملاحدہ کے اس نظریے کو تسلیم کر لیا ہے //
 یہاں عزازی صاحب پھر سائنسی غلطی کر رہے ہیں۔ویکیوم انرجی کائنات میں سب سے پہلے موجود تھی اور کوانٹم فلکچویشن سے اس انرجی سے ورچول پارٹیکلز پیدا کیے گئے جن سے الیکٹران پروٹان ایٹم سب مالیکیول اور پوری کائنات بنی۔یعنی کہ یہ ویکیوم انرجی پہلے تھی مادہ اس سے تخلیق ہوا۔اب مادہ تخلیق کیا گیا یعنی ہمیشہ سے موجود نہیں تھا اور جو مادہ ہمیشہ سے موجود نہ ہو اور تخلیق کیا جائے تو وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے۔یہ مادہ اپنی پیدائش کے بعد بھی اسی ویکیوم انرجی کے زیر اثر ہے جس سے یہ پیدا کیا گیا لہذا یہ مادہ اور کائنات خدا نہیں بلکہ خدا وہ ہے جس نے اپنی قدرت یعنی ویکیوم انرجی سے اس کو پیدا کیا۔اب یہ مادہ پیدا کیا گیا۔اس کا الگ کوئ وجود ہے ہی نہیں۔یہ جس توانائ سے پیدا کیا گیا یا تو واپس اسی توانائ میں تبدیل ہوگا یا اس توانائ کے زیر اثر رہے گا۔اب مادہ محتاج ہے اپنی تخلیق،اپنے وجود اپنی تبدیلی کے لیے ویکیوم انرجی کا اور جو مادہ تخلیق ہو،زیر اثر ہو،اپنا وجود اس توانائ سے الگ نہ رکھ سکتا ہو وہ مادہ اور اس مادے پر مشتمل کائنات خدا کیسے ہوسکتی ہے۔یہاں تک کہ ویکیوم انرجی سے پیدا ہونے کے بعد بھی یہ مادہ کنٹرول میں ہے،خود سے کچھ نہیں کر سکتا تو یہ مخلوق ہوا نہ کہ خدا۔
 آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ کائنات ابدی ہے۔عزازی صاحب میرے حملوں سے غلط استدلال کر رہے ہیں۔کائنات ابدی و ازلی ہے ہی نہیں۔خود سائنس مانتی ہے۔ایک سائنسدان سر آرتھر ایڈنگٹن کے مطابق تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون یہ ظاہر کرتا ہے کہ کائنات میں بے ترتیبی وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کبھی کائنات میں یہ بے ترتیبی نہیں تھی اور یہ پیدا کی گئ اور اس کا ایک آغاز ہے۔مزید یہ کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں اور کائنات پھیل رہی ہے۔جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کا ایک نقطہ آغاز تھا۔لہذا یہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہے بلکہ یہ ایک خالق نے پیدا کی۔یہ پڑھ لیحیے مزید سائنسی تفصیل حوالے کے ساتھ۔
 The cosmologist, Sir Arthur Eddington, once said, 'Don't worry if your theory doesn't agree with the observations, because they are probably wrong.' But if your theory disagrees with the Second Law of Thermodynamics, it is in bad trouble. In fact, the theory that the universe has existed forever is in serious difficulty with the Second Law of Thermodynamics. The Second Law, states that disorder always increases with time. Like the argument about human progress, it indicates that there must have been a beginning. Otherwise, the universe would be in a state of complete disorder by now, and everything would be at the same temperature. In an infinite and everlasting universe, every line of sight would end on the surface of a star. This would mean that the night sky would have been as bright as the surface of the Sun. The only way of avoiding this problem would be if, for some reason, the stars did not shine before a certain time.
 In a universe that was essentially static, there would not have been any dynamical reason, why the stars should have suddenly turned on, at some time. Any such "lighting up time" would have to be imposed by an intervention from outside the universe. The situation was different, however, when it was realised that the universe is not static, but expanding. Galaxies are moving steadily apart from each other. This means that they were closer together in the past. One can plot the separation of two galaxies, as a function of time. If there were no acceleration due to gravity, the graph would be a straight line. It would go down to zero separation, about twenty billion years ago. One would expect gravity, to cause the galaxies to accelerate towards each other. This will mean that the graph of the separation of two galaxies will bend downwards, below the straight line. So the time of zero separation, would have been less than twenty billion years ago. 
اس پر مزید کئ سائنسی دلائل میں پیش کرسکتا ہوں لیکن بات لمبی ہوجائے گی۔
 مزید یہ کہ کائنات ابدی بھی نہیں ہے۔خود سائنس کہتی ہے کہ کائنات ایک دن فنا ہوجائے گی اور یہ تباہی ایک vacuum decay سے وقوع پذیر ہوگی۔جس سے ایک سائنسی مظہر کوانٹم ٹنلنگ پیدا ہوگا اور کائنات چند لمحوں میں تباہ ہوجائے گی اس کو سائنس وہی کہتی ہے جو ہم کہتے یعنی کہ univese dooms day یا قیامت کا دن۔یہ بات خود دنیا کا ذہین ترین انسان سٹیفن ہاکنگ کہتا ہے۔یہ پڑھیں
 Hawking is not the only scientist who thinks so. The theory of a Higgs boson doomsday, where a quantum fluctuation creates a vacuum "bubble" that expands through space and wipes out the universe, has existed for a while

https://www.google.com.pk/…/47737-stephen-hawking-higgs-bos…
اس کی مزید تفصیل آپ اسی لنک پر پڑھ سکتے ہیں خود ہاکنگ کے مطابق۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ 
 //
اسکے مقابلے میں سائنس ملٹی یونیورس کی تھیوری پیش کرتی ہے جسکا ذکر اسٹیفن ہالکنگ نے بھی اپنی کتاب دی گرانڈ ڈیزائن کے صفحہ نمبر 8 پر کیا ہے ... اسٹیفن ہالکنگ کیا کہتا ہے ، احید صاحب کی خدمت میں اسکی دو لائنیں پیش کرتا ہوں
 We will describe how M Theory may offer answers to the question of creation . According to M Theory, ours is not the only universe. //
عزازی صاحب یہاں پھر ایک سائنسی غلطی کر رہے ہیں۔کثیر الکائناتی مفروضہ یا  Multiverse theory پیش کر رہے ہیں۔عزازی صاحب یہ ایک سائنسی مفروضہ ہے جو آج تک ثابت نہیں ہوسکا۔اس کو فزکس کے اکثر سائنسدان خود نہیں مانتے۔اس کی کوئ سائنسی گواہی نہیں ہے۔ دنیا کے نمایاں ترین سائنسدان اس پر یقین نہیں رکھتے۔وہ اسے ایک سائنسی نہیں بلکہ ایک خیالی فلسفیانہ مفروضہ تسلیم کرتے ہیں۔یہ پڑھ لیں کہ سائنسدان خود اس مفروضے پر یقین نہیں رکھتے۔
 The multiverse (or meta-universe) is the hypothetical set of possible universes, including the universe in which we live. Together, these universes comprise everything that exists: the entirety of space, time, matter, energy, and the physical laws and constants that describe them.
The various universes within the multiverse are called "parallel universes", "other universes" or "alternative universes".
 The physics community continues to debate the multiverse hypothesis. Prominent physicists disagree about whether the multiverse exists.
 Some physicists say the multiverse is not a legitimate topic of scientific inquiry. Concerns have been raised about whether attempts to exempt the multiverse from experimental verification could erode public confidence in science and ultimately damage the study of fundamental physics. Some have argued that the multiverse is a philosophical rather than a scientific hypothesis because it cannot be falsified. The ability to disprove a theory by means of scientific experiment has always been part of the accepted scientific method.Paul Steinhardt has famously argued that no experiment can rule out a theory if the theory provides for all possible outcomes.
 Around 2010, scientists such as Stephen M. Feeney analyzed Wilkinson Microwave Anisotropy Probe (WMAP) data and claimed to find evidence suggesting that our universe collided with other (parallel) universes in the distace.However, a more thorough analysis of data from the WMAP and from the Planck satellite, which has a resolution 3 times higher than WMAP, did not reveal any statistically significant evidence of such a bubble . In addition, there was no evidence of any gravitational pull of other universes on ours.
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Multiverse
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
 //
اگر انرجی خدا یا خدا کی صفت ہے تو اسکا مطلب ہے کہ سب کچھ خدا ہے یا خدا کی صفت ہے ... کیونکہ ہم سب انرجی کی ڈینس فارم ہیں ...
اگر ایسا ہے تو انرجی (خدا یا خدا کی صفت ) بچہ بھی جنتی ہے اور خود بھی جنی جاتی ہے 
انرجی (خدا یا خدا کی صفت ) کو بھوک بھی لگتی ہے 
انرجی (خدا یا خدا کی صفت ) کو نیند بھی آتی ہے 
انرجی کو (خدا یا خدا کی صفت ) تکلیف بھی ہوتی ہے 
 
انرجی (خدا یا خدا کی صفت ) جب تغیر پذیر ہوتی ہے تو خدا کی زبان میں وہ فنا بھی ہوتی ہے جب وہ کہتا ہے کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے 
 
گویا قران کی جن جن آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا میں یہ خامیاں موجود نہیں وہ سب آیات غلط ثابت ہوتی ہیں -
 
اگر انرجی خدا کی صفت ہے تو صفت وجود کے اندر ہوتی ہے ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ ہم سب انرجی (خدا کی صفت ) ہیں تو اسکے وجود کے اندر ہیں اور نتیجتہ اسکے وجود کا حصہ ہوتے ہوے ہم سب خدا ہیں ...//
 
عزازی صاحب سبحان اللہ۔تواڈی منطق نوں سلام۔محترم ہم مادہ ہیں اور ویکیوم انرجی سے تخلیق شدہ جو کہ خدا کی ذات کی ایک نشانی ہے اور پیدا شدہ چیز کس طرح خود خدا ہوسکتی ہے اور ہم سب ویکیوم انرجی کے زیر اثر تو جو زیر اثر ہوا یعنی ہم اور تمام مادہ وہ خدا کیسے ہوا۔لہذا ہم نہ خدا کی صفت ہیں اور نہ ہی خدا بلکہ خدا کی تخلیق ہیں اور سونا،بھوک لگنا،بچے جننا،یہ سب خصوصیات اس مخلوق کی ہیں جو ویکیوم انرجی سے پیدا کی گئ اور اس کے زیر اثر ہے یعنی یہ صفات ایک مخلوق کی ہیں جو خدا ہے نہ خدا کی صفت تو پھر آپ کی بیان کردہ منطق سے کس طرح خدا کی ذات اور خدا کی صفات کا انکار سامنے آتا ہے اور کس طرح قرآن پاک کا انکار سامنے آتا ہے۔آپ نے انتہائ غلط منطق پیش کی ہے۔ہم خدا کی صفت نہیں بلکہ اس کی تخلیق ہیں کیوں کہ اس کی قدرت یعنی ویکیوم انرجی سے پیدا کیے گئے اور یہ تخلیق خدا کے زیر اثر ہے اور جو پیدا کیا جائے وہ خدا نہیں ہوسکتا۔یہ بات اوپر کئ بار کی جا چکی۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
 //
انرجی خدا کی صفت ہوتے ہوے اس نوعیت کی ہے جو وجود سے باہر ہوتی ہے جیسا کہ سورج اور دھوپ کی مثال لی جا سکتی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ خدا کہیں نہیں ہے کیونکہ انرجی کی کوئی حدود نہیں ہیں اور لاجک کے مطابق ایک ہی وقت میں دو لامحدود چیزیں نہیں ہو سکتیں یعنی خدا بھی اور انرجی بھی ...
 
احید صاحب کے دو متضاد موقف ہمارے سامنے آتے ہیں ... پہلا وہ ہے جب ہماری گوفتگو کی ابتدا ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم کائنات کو خدا نہیں کہہ سکتے ...( یاد رکھئے کہ پوری کائنات انرجی ہے بشمول انسان )
 
دوسرا موقف انکا اوپر والا کومنٹ ہے جس میں وہ انرجی کا ہر جگہہ ہونا مان کر اسکو خدا کی صفت کہتے ہیں اور پھر صفت کے ہر جگہہ ہونے سے خدا کا ہر جگہہ ہونا استدلال کرتے ہیں ...//
 
عزازی صاحب یہاں پھر غلطی کر رہے ہیں۔خدا کی ۔صفت کو آپ نے تشبیہ دی سورج اور دھوپ سے۔اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ کی مثال گدھے سے دی جائے۔آپ ایک انسان ہیں اور گدھا ایک حیوان۔آپ کی خصوصیات کا بھلا گدھے کی خصوصیات سے کیا موازنہ۔سورج کی روشنی ایک خاص حد تک ہوتی ہے، اور جس کی ایک حد ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا جب کہ میں نے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل کے لیے ویکیوم انرجی کی سائنسی دلیل دی جو پوری کائنات میں موجود ہے جس کی کوئ حد نہیں جو پورے مادے کو کنٹرول کرتی ہے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا اور اس کو کنٹرول کر رہی ہے۔آپ نے ایک جزو یعنی سورج کو ایک کل یعنی خدا سے موازنے کے لیے استعمال کیا۔آپ کا موازنہ ہی غلط ہے۔سورج محدود اس کی دھوپ محدود جب کہ خدا کی ذات کی نشانی یعنی ویکیوم انرجی پوری کائنات میں موجود۔یہ انرجی اس خدا سے الگ نہیں ہے کیوں کہ یہ اس خدا کی ایک نشانی ہے،لہذا یہ لامحدود صفت اسی خدا کی ہی ہے جس کی یہ نشانی ہے تو پھر یہ انرجی خدا سے کیسے الگ ٹھہری۔اس کا لامحدود ہونا خدا کی ذات کی قدرت کے لامحدود ہونے کو ہی ظاہر کر رہا ہے کیوں کہ یہ خدا کی قدرت کی ایک سائنسی دلیل ہے۔پھر آپ کیسے اسے خدا سے الگ جان کر ایک الگ لا محدود چیز قرار دے سکتے ہیں جب کہ یہ خود ایک لامحدود کی نشانی ہے۔اور کائنات ایک انرجی یعنی ویکیوم انرجی سے پیدا کی گئ یہ اسی انرجی میں واپس تبدیل ہوسکتی ہے یعنی اس کا خالق اس سے اس کی مادی خصوصیات چھین کر اسے واپس اسی توانائ میں تبدیل کر سکتا ہے جس سے یہ پیدا کی گئ۔اب یہ کائنات پیدا کی گئ اور اس کے زیر اثر ہے تو زیر اثر رہنے والی چیز خدا نہیں بلکہ مخلوق کہلائے گی۔کیوں کہ خدا نہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے زیر اثر۔بیشک ہم ایک توانائ سے تخلیق کئے گئے لیکن اس توانائ کی خصوصیات یعنی کسی سے پیدا نہ ہونا اور کسی کے زیر اثر نہ ہونا،نہیں رکھتے لہذا ہم یا یہ کائنات خدا نہیں ہے۔باقی ایک ہی چیز رہتی ہے جو نہ کسی سے پیدا کی گئ ،نہ کسی کے زیر اثر ہے،نہ فنا کی جا سکتی ہے یعنی ویکیوم انرجی جو کہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک ایسی طاقت کائنات میں موجود ہے جو بغیر کسی پیدا کرنے والے کے ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی اور یہ بات تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق خدا کے بغیر کسی پیدا۔ کرنے والے کے ہمیشہ سے موجود اور ہمیشہ موجود رہنے کا سائنسی ثبوت ہے۔اب تک کی بحث میں ہم نے ثابت کر دیا کہ نہ الیکٹران خدا ہیں،نہ الیکٹرک فورس خدا ہے،نہ کائنات خدا ہے،باقی ایک ہی چیز بچتی ہے یعنی ویکیوم انرجی جو کہ خدا کی ذات کی نشانی ہے۔یعنی ہر جگہ اس کی قدرت ویکیوم انرجی کی صورت میں موحود،اسی سے پوری کائنات کی تخلیق،اس کی صورت میں پوری کائنات اس کے زیر اثر۔یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ کائنات میں ایک ہمیشہ سے موجود اور ہمیشہ موجود رہنے والی،سب پیدا کرنے والی اور پوری کائنات کو کنٹرول کرنے والی ایسی ہستی موجود ہے جسے ہم اللٰہ تعالٰی کہتے ہیں۔اور یہ بات ہم ان تک کی ساری بحث میں سائنسی طور پر ثابت کر چکے ہیں الحمداللہ


No comments:

Post a Comment