دعوت الی الله HOW TO GIVE DAWAH








یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ﴿005:067﴾  
 اے پیغمبر ! جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچ دو۔
فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ وَ عَلَیۡنَا الۡحِسَابُ﴿013:040﴾
تو تمہارا کام (ہمارے احکام کا) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے۔
(بلغوا عني ولو آية) (صحیح بخاری  ح 667 ، س 442 ج 4 )

کیو ں  کرے  :

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ   (2:159)

جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم نے ان لوگوں کے (سمجھانے کے) لیے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے ایسوں پر خدا اور تمام لعنت کرنے والے لعنت 
کرتے ہیں

ملک کائنات کا تبلیغ  اسلام کے لئے احسن طریقہ  :

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ      ﴿016:125﴾

(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اس کے راستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے۔ اور جو راستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے۔

1)   الحکمہ  :
نہایت پختہ ،مضبوط ،محکم مضامین اور روشن تر دلائل اور  و ا ضع ترین براہین کے ساتھ نا صحانہ اور حکیمانہ انداز سے سلجھے ہوئے اور نہایت موثر طریقہ سے مخاطب  کو حق  سمجھا نے.
2)   الموعظتہ  الحسنہ  :
ایسے موثر اور رقت انگیز طریقے ، بہترین اور عمدہ  امثال  بیش بہا اور خوش آیند و اعظ، عبرت آموز واقعیات اور ترقیب و ترہیب کے زریعہ اس کے کانوں میں آواز حق پہنچائی جائے .
3)   جدال احسن  :
پہلی بیان کردہ   دو سورتیں  اس سرکش کے لئے سودمند نہیں ہوئی  تو  اسکو فراگدلی  اور وسعت قلبی کے ساتھ  موقع  دے  تاکہ وہ  اپنے عقلی  اور نقلی  دلائل  آپ سے  بیان  کرے  پھر  جس طرح  ایک ڈاکٹر  اپنے  مریض  کی بیماری  اور علالت  کے اصل  سبب رکھ  کر  نہات  خوش  خلقی  سے بحث و مباحثہ  اور احسن  پیرایہ  میں اس سے مجادلہ کرے .

کچھ  ضروری ہدایت  :
1)      دین حق  کی  تبلیغ  اور  نشرو اشاعت  انتہائی محبّت و الفت  ہمدردی  اور  دلسوزی  کے ساتھ کرنی چائہیے .
2)      عقیدہ  وو مذھب کا قبول  کرنا اور رد کرنا  ایک اختیاری  معاملہ ہے  اس کو الله پر چھوڑنا چاہیے
3)      داعی حق کا کام  صرف یہ ہے کے وہ  وسعت  ظرف ، عالی حوصلگی ، شرافت ، اخوت  اور دلگزاری  کے ساتھ اپنے بھولے ہوئے  اور غافل  و  بےخبر بھآی  کو محض  ناصحانہ  طریقہ پر نیک صلاح  دے اور ابدی فوز و فلاح اور بھلائی کی طرف بلانے ، اس کی بلاوجہ  کسی   معا وند  حق  کے ساتھ   الجھ  کر حکمت کا  زرین  ضابطہ ہرگز  نظر  انداز  نہیں کرنا چائئیے .
4)      تبلیغ اسلام کے سلسلے میں اس راستے کے مسافر  کو کبھی کبھار بعض   معا وند  ین  کے ساتھ  اپنی زندگی  میں مناظرانہ  انداز  میں افہام و تفہیم ، تبادلہ خیالات اور بدلائل  اثبات  حق  اور  ابطال  باطل  سے بھی  ضرور کام لینا پڑھتا ہے .
1.   نسخہ  :( FARMULA ) 
وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳
﴿041:033﴾

اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہو سکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں؟
اللہ تعالٰی کا محبوب انسان۔
فرماتا ہے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی؟ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے۔ یہ آیت عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے قیامت کے دن موذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے۔ سنن میں ہے امام ضامن ہے اور موذن امانتدار ہے اللہ تعالٰی اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت سعد بن وقاص فرماتے ہیں۔ اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالٰی کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں اگر میں موذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی۔ حضرت عمر سے منقول ہے۔ اگر میں موذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی۔ اس پر میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں! لیکن اے عمر ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ موذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں موذن ہیں ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا حی علی الصلوۃ کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے۔ ابن عمر اور عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت موذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے موذن غیر موذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی۔ اس لئے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا حضرت بلال کو سکھاؤ۔ وہ بلند آواز والے ہیں۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں موذن بھی شامل ہیں۔ حضرت حسن بصری اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں یہی لوگ حبیب اللہ ہیں۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بیحد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ تیرے بارے میں جوشخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے درگذر کرلیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں، انسانی شر سے بچنے کا طریقہ۔ اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے،اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ۔ پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورہ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے(خذ العفو وامر بالمعروف) الخ۔ اور سورہ مومنین کی آیت (ادفع بالتی) الخ، میں حکم ہوا ہے کہ درگذر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو وغیرہ۔

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ﴿۳۴
﴿041:034﴾

اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے

وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ ﴿۳۵
﴿041:035﴾

اور یہ بات انہیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں
_____________
وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۶
﴿041:036﴾

اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو خدا کی پناہ مانگ لیا کرو بیشک وہ سنتا (اور) جانتا ہے


2. فریق  مخالف  کے معبودوں  کو سب و شتم نہ  کرنا  :
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمۡ ۪ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ مَّرۡجِعُہُمۡ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۰۸
﴿006:108﴾

اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بے ادبی سے بےسمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔

3.نرمی کرنا  :
فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی ﴿۴۴
﴿020:044﴾

اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یاڈر جائے ‏.

4. ذکر کرنا  :
اِذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ اَخُوۡکَ بِاٰیٰتِیۡ وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ ﴿ۚ۴۲
﴿020:042﴾

تو تم اور تمہارا بھائی دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں سُستی نہ کرنا

5. گشت میں لوگوں سے ڈرنا :
قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ اَوۡ اَنۡ یَّطۡغٰی ﴿۴۵
﴿020:045﴾

دونوں کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار ہمیں خوف ہے کہ وہ ہم پر تعدی کرنے لگے یا زیادہ سرکش ہو جائے
اللہ کے سامنے اظہار بےبسی۔
اللہ کے ان دونوں رسولوں نے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اپنی کمزوری کی شکایت رب کے سامنے کی کہ ہمیں خوف ہے کہ فرعون کہیں ہم پر کوئی ظلم نہ کرے اور بدسلوکی سے پیش نہ آئے۔ ہماری آواز کو دبانے کے لئے جلدی سے ہمیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر دے۔ اور ہمارے ساتھ نا انصافی سے پیش نہ آئے۔ رب العالم کی طرف سے ان کی تشفی کردی گئی۔ ارشاد ہوا کہ اس کاکچھ خوف نہ کھاؤ میں خود تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری اور اس کی بات چیت سنتا رہوں گا اور تمہارا حال دیکھتا رہوں گا کوئی بات مجھ پر مخفی نہیں رہ سکتی اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے وہ بغیر میری اجازت کے سانس بھی تو نہیں لے سکتا۔ میرے قبضے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا۔ میری حفاظت و نصرت تائید و مدد تمہارے ساتھ ہے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں دعا کی کہ مجھے وہ دعا تعلیم فرمائی جائے جو میں فرعون کے پاس جاتے ہوئے پڑھ لیا کروں تو اللہ تعالٰی نے یہ دعا تعلیم فرمائی۔ ہیا شراھیا جس کے معنی عربی میں انا الحی قبل کل شئی والحی بعد کل شئی یعنی میں ہی ہوں سب سے پہلے زندہ اور سب سے بعد بھی زندہ۔ پھر انہیں بتلایا گیا کہ یہ فرعون کو کیا کہیں؟ اب عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں یہ گئے، دروازے پر ٹھہرے، اجازت مانگی، بڑی دیر کے بعد اجازت ملی۔ محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ دونوں پیغمبر دو سال تک روزانہ صبح شام فرعون کے ہاں جاتے رہے دربانوں سے کہتے رہے کہ ہم دونوں پیغمبروں کی آمد کی خبر بادشاہ سے کرو۔ لیکن فرعون کے ڈر کے مارے کسی نے خبر نہ کی دو سال کے بعد ایک روز اس کے ایک بےتکلف دوست نے جو بادشاہ سے ہسنی دل لگی بھی کر لیا کرتا تھا کہا کہ آپ کے دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے اور ایک عجیب مزے کی بات کہہ رہا ہے وہ کہتا ہے کہ آپ کے سوا اس کا کوئی اور رب ہے اور اس کے رب نے اسے آپ کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اس نے کہا کیا میرے دروازے پر وہ ہے اس نے کہا ہاں۔ حکم دیا کہ اندر بلا لو چنانچہ آدمی گیا اور دونوں پیغمبر دربار میں آئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں رب العالمین کا رسول ہوں فرعون نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) ہے۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ آپ مصر میں اپنے ہی گھر ٹھہرے تھے ماں نے اور بھائی نے پہلے تو آپ کو پہچانا نہیں گھر میں جو پکا تھا وہ مہمان سمجھ کر ان کے پاس لا رکھا اس کے بعد پہچانا سلام کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس بادشاہ کو اللہ کی طرف بلاؤں اور تمہاری نسبت فرمان ہوا ہے کہ تم میری تائید کرو۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا پھر بسم اللہ کیجئے۔ رات کو دونوں صاحب بادشاہ کے ہاں گئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لکڑی سے کواڑ کھٹکھٹائے۔ فرعون آگ بگولا ہو گیا کہ اتنا بڑا دلیر آدمی کون آگیا؟ جو یوں بےساختہ دربار کے آداب کے خلاف اپنی لکڑی سے مجھے ہوشیار کر رہا ہے؟ درباریوں نے کہا حضرت کچھ نہیں یونہی ایک مجنوں آدمی ہے کہتا پھرتا ہے کہ میں رسول ہوں۔ فرعون نے حکم دیا کہ اسے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ حضرت ہارون علیہ السلام کو لئے ہوئے آپ اس کے پاس گئے اور اس سے فرمایا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے انہیں سزائیں نہ کر ہم رب العالمین کیطرف سے اپنی رسالت کی دلیلیں اور معجزے لے کر آئے ہیں اگر توہماری بات مان لے تو تجھ پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہوگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو خط شاہ روم ہرقل کے نام لکھا تھا اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ مضمون تھا کہ یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے شاہ روم ہرقل کے نام ہے جو ہدایت کی پیروی کرے اس پر سلام ہو۔ اس کے بعد یہ کہ تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اللہ تعالٰی دوہرا اجر عنایت فرمائے گا۔ مسیلمہ کذاب نے صادق و مصدوق ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے رسول مسلیمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام ، آپ پر سلام ہو، میں نے آپ کو شریک کار کر لیا ہے شہری آپ کے لئے اور دیہاتی میرے لئے۔ یہ قریشی تو بڑے ہی ظالم لوگ ہیں۔ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے مسلیمہ کذاب کے نام ہے سلام ہو ان پر جو ہدایت کی تابعداری کریں سن لے زمین اللہ کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بناتا ہے انجام کے لحاظ سے بھلے لوگ وہ ہیں جن کے دل خوف الٰہی سے پر ہوں۔ الغرض رسول اللہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون سے یہی کہا کہ سلام ان پر ہے جو ہدایت کے پیرو ہوں۔ پھر فرماتا ہے کہ ہمیں بذریعہ وحی الٰہی یہ بات معلوم کرائی گئی ہے کہ عذاب کے لائق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ کے کلام کو جھٹلائیں اور اللہ کی باتوں کے ماننے سے انکار کر جائیں۔ جیسے ارشاد ہے (فاما من طغی واثر الحیوۃ الدنیا فان الجحیم ھی الماوی جو شخص سرکشی کرے اور دنیا کی زندگانی پر مر مٹ کر اسی کو پسند کر لے اس کا آخری ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ اور آیتوں میں ہے کہ میں تمہیں شعلے مارنے والی آگ جہنم سے ڈرا رہا ہوں جس میں صرف وہ بدبخت داخل ہوں گے جو جھٹلائیں اور منہ موڑ لیں اور آیتوں میں ہے کہ اس نے نہ تو مانا نہ نماز ادا کی بلکہ دل سے منکر رہا اور کام فرمان کے خلاف کئے۔
قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیۡ مَعَکُمَاۤ اَسۡمَعُ وَ اَرٰی ﴿۴۶
﴿020:046﴾

 (خدا نے) فرمایا کہ ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں (اور) سنتا اور دیکھتا ہوں ‏.

6. داعی کس طرح  رویہ  رکھے :
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹
﴿003:159﴾

 (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے ہیں تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے تو ان کو معاف کر دو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشاورت لیا کرو اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو بیشک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے

 گشت کے دوران ضروری ہدایت :

1)      سوال  کرنے پر جب بھی آپ جواب  دے  مدعو  کو پوچھئے  " کیا آپ کو پتہ ہے ؟"
2)      جواب میں سیدھا سوال نہ کرے بلکی اس   ISSHUE    کا   BACKGROUND    بیان کرے .
3)      نرمی سے بات  کرے  .
4)      ایک طرفہ بات نا کارے .


اسلامک مسلہ  ..... دنیاوی  مسلہ ......... توحید
دنیاوی  مسلہ ......  RATIONAL  ISSUE ...... ISLAMIC ISSUE ..... توحید
  صرف اور صرف  توحید  پر  ہی  لانا  ہے  .

مد عو  کی قسم  :

1)      اشہد  کے لئے  تیار ہے  : کلمہ پڑھا دیجئے ، جماعت میں بھیج دیجئے .
2)      اسلام کو جان رہا ہے  : 
3)      ناستک  : 
4)      معتدل   NEUTRAL :




دعوتی  خاکہ

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۶۴
﴿003:064﴾

کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی ہے) اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا کسی کو کار ساز نہ سمجھیں اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرمانبردار ہیں ‏.

گشت  :
1)      ایشور  کا شانتی  کا سندیش  لیکر   اینے  ہے .
2)      پوتر  قرآن  پوری  مانو  جاتی  کے لئے  اوتریت  ہوا ہے  جس میں   6666  شلوک  ہے .553   شلوک  مسلمانوں  کے لئے   اور   6113شلوک  آپ لوگو ں  کے لئے    اوتریت  ہوئے ہیں  یہ ہماری  بھول  ہیں کے  ہم نے آپ تک  یہ سندیش  نہیں  پہنچایا .
3)      یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی  لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ﴿049:013﴾
ثابت   ہوتا  ہے  کے  ایشور  نے ہمیں  ایک ہی  ماتا پتا  سے  پیدا  کیا   . جب ہمارے  ماتا پتا  ایک  ، پیدا  ہونے کی پرکریا  ایک ، مرنے کی پرکریا  ایک ، ہوا ایک ، پانی  ایک ، سورج کی کرن  ایک  یہ سب ایک ہے تو ہمارے  ملک  کیو ں  الگ .....

نہیں میرے  بھائی  ہم سب کا ملک  ایک ہی ہے ....

( نوٹ :  یہا ں  وہ  ضرور  سوال کرینگا  یا  تو  ہا ں  کہدنگا  .. ورنہ  وہ  ایک سے زیادہ  خدا  ہونے کو ماننے  کا کہنگا  یا  صاف  انکار  کردینگا  کے  میں ایشور کو نہیں مانتا  . اس لئے  یہا  تین  چارٹ  ہے  ) 




سب کا  ملک ایک  :
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱
﴿112:001﴾

کہو کہ وہ (ذات پاک ہے جس کا نام) اللہ (ہے) ایک ہے

اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک ٭٭ اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے، حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم حضرت عزیز کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم حضرت مسیح کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالٰی نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی تم کہدو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالٰی ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں جس کا کوئی وزیر نہیں جس کا کؤی شریک نہیں جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ہم جنس نہیں جس کا برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے۔ وہ صمد ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالٰی جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبانہ و تعالٰی سب پر الب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے، صمد کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں صمد وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ صمد کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر کی روایت سے حضرت ابی بن کعب سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گذرا اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ صمد کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔ شعبی کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں صمد وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ صمد میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو، لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔ حافظ ابو القاسم طبراین رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب "السنہ" میں لفظ صمد کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ درصال یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردر اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے نہ وہ کھوکھلا ہے نہ وہ کھائے نہ پئے سب فانی ہے اور وہ باقی ہے وغیرہ۔ پھر فرمایا اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔ جیسے اور جگہ ہے
یعنی وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہرچیز کو اسی نے پیدا کیا ہے: یعنی وہ ہرچیز کا خلاق مالک ہے پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے جیسے اور جگہ فرمایا وقالو اتحذا الرحمٰن ولدا الخ، یعنی یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں اور جگہ ہے وقالوا اتخذالرحمن ولدا سبحانہ بل الخ، یعنی ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں اور جگہ ہے وجعلوا بینہ وبین الجنتہ نسبتاً الخ، یعنی انہوں نے اللہ تعالٰی کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالٰی ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے۔ بخاری کی اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور احلمد اللہ سورہ اخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی۔
اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲
﴿112:002﴾

معبود برحق جو بےنیاز ہے
لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳
﴿112:003﴾

نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا۔
وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴
﴿112:004﴾

اور کوئی اس کا ہمسر نہیں


ایک سے زیادہ خدا  کا تصور  پیش کرنے والے کو جواب  :
لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۲۲
﴿021:022﴾

اگر آسمان اور زمین میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو (زمین و آسمان) درہم برہم ہو جاتے۔ جو باتیں یہ لوگ بتاتے ہیں خدائے مالک عرش ان سے پاک ہے ‏.

اور ایک آیات

مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿ۙ۹۱
﴿023:091﴾

خدا نے نہ تو (اپنا) کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اسکے ساتھ کوئی اور معبود ہے ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوقات کو لے کر چلتا اور ایک دوسرے پر غالب آ جاتا یہ لوگ جو کچھ (خدا کے بارے میں) بیان کرتے ہیں خدا اس سے پاک ہے

مثال  :
1)  فرض کیجیے 
ایک خدا  پیدا  کرنے والا ، ایک خدا  پالنے والا ، ایک خدا  مارنے والا .
مارنے والے خدا  نے ایک شخص کے بارے میں مارنے  کا فیصلہ  کرلیا ، اب و ہ  شخص پالنے والے کا بڑا بھکت ہے اور انتہائی  عاجزی سے دعا  کررہا ہے اپنے زندہ  رہنے کے لئے ، پالنے والے خدا نے اسکی دعا  قبول  کرلی . اب کیا ہونگا ؟  دو خدا  دو مختلف کام .. جس کا نتیجہ  پالنے  والے اور مارنے والے خدا میں لڑھائی  اور جنگ  میں ایک ہی  خدا  جتینگا ، یہ تو مشکل ہے کون  جتینگا  لیکن  ایک تو لڑھائی  ہارے گا ، کیا ہارنے والا  خدا  ہوسکتا ہے ؟؟؟
2)  INTERVIEW
تین  لوگ  ایک انٹرویو  کے لئے  گئے ، نوکری  صرف  ایک آدمی  کے لئے  ہے ، تینوں  اپنے الگ الگ خدا کے بڑے  عبادت گزار  بندے ہیں . تینوں  نے نوکری کے لئے منّتیں  مانگی ہے . اگر ماں لیا جائے کے یہاں ایک سے زیادہ  خدا ہے تو  ہر خدا یہی چاھیںگا  کہ اسی کا  بندہ  نوکری  کے قابل  ہے . بتا یئے .. ہر خدا کو اپنے ہی بندے کو نوکری دلانا  ہے کیا ہونگا ؟؟ کیا کوئی شخص  کبھی  نوکری  کر پینگا ؟؟ جب صرف نوکری  کے لئے خدا لڑ پڑھیگے تو  آپ تصور  کیجئے  دنیا میں بلین  چیزیں  ہے ہر ایک کو خدا کا فرمان  چاہیے .

3)       اس کائنات  میں اگر ایک سے زیادہ  خدا  ہوتے  تو کیا ہوتا . ایک  کہتا  اب  رات  ہونگی  دوسرا  کہتا  دن  ہونگا . ایک کہتا کے چھ  مہینے کا دن  ہونگا ، دوسرا کہتا تین  مہینے کا ہونگا . ایک کہتا سورج  پچھم  سے نکلے گا . دوسرا  کہتا نہیں  آج  پورب  سے نکلے گا .
اگر دیوی دیوتاؤں  اور ولیوں کو یہ حق واقعی ہوتا  اور وہ  الله  کے کاموں  میں شریک  بھی ہوتے  تو ایسا  ہوتا کے  ایک غلامنے پوجا  ارچنا  کرکے  بارش  کے دیوتا  سے اپنی  بات منوالی  تو غلام  کے ملک  کی جانب  سے آرڈر  آتا  ہے کے  ابھی  بارش  نہیں  ہونگی . پھر  نیچے  والے ہڑتال  کردیتے  اب  لوگ  بیٹھے  ہیں کے  دن  نہیں نکلا ، معلوم  ہوا کہ  سورج ددیوتا  نے  ہڑتال  کر رکھی  ہے .

خدا  میں یقین  نہیں رکھتا  ( ناستک )

اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَیۡرِ شَیۡءٍ اَمۡ ہُمُ الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿ؕ۳۵
﴿052:035﴾

کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں
توحید ربوبیت اور الوہیت
توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا ثبوت دیا جا رہا ہے فرماتا ہے کیا یہ بغیر موجد کے موجود ہوگئے ؟ یا یہ خود اپنے موجد آپ ہی ہیں ؟ دراصل دونوں باتیں نہیں بلکہ ان کا خالق اللہ تعالٰی ہے یہ کچھ نہ تھے اللہ تعالٰی نے انہیں پیدا کر دیا ۔ حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورہ والطور کی تلاوت کر رہے تھے میں کان لگائے سن رہا تھا جب آپ آیت (مصیطرون ) تک پہنچے تو میری حالت ہوگئی کہ گویا میرا دل اڑا جا رہا ہے (بخاری ) بدری قیدیوں میں ہی یہ جبیر آئے تھے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب یہ کافر تھے قرآن پاک کی ان آیتوں کا سننا ان کے لئے اسلام کا ذریعہ بن گیا پھر فرمایا ہے کہ کیا آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے یہ ہیں ؟ یہ بھی نہیں بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ خود ان کا اور کل مخلوقات کا بنانے والا اللہ تعالٰی ہی ہے پھر بھی یہ اپنے بےیقینی سے باز نہیں آتے پھر فرماتا ہے کیا دنیا میں تصرف ان کا ہے ؟ کیا ہر چیز کے خزانوں کے مالک یہ ہیں ؟ یا مخلوق کے محاسب یہ ہیں حقیقت میں ایسا نہیں بلکہ مالک و متصرف صرف اللہ عزوجل ہی ہے وہ قادر ہے جو چاہے کر گذرے پھر فرماتا ہے کیا اونچے آسمانوں تک چڑھ جانے کا کوئی زینہ ان کے پاس ہے ؟ اگر یوں ہے تو ان میں سے جو وہاں پہنچ کر کلام سن آتا ہے وہ اپنے اقوال وافعال کی کوئی آسمانی دلیل پیش کرے لیکن نہ وہ پیش کر سکتا ہے نہ وہ کسی حقانیت کے پابند ہیں یہ بھی ان کی بڑی بھاری غلطی ہے کہ کہتے ہیں فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں کیا مزے کی بات ہے کہ اپنے لئے تو لڑکیاں ناپسند ہیں اور اللہ تعالٰی کے لئے ثابت کریں انہیں اگر معلوم ہو جائے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو غم کے مارے چہرہ سیاہ پڑ جائے اور اللہ تعالٰی کے مقرب فرشتوں کو اس کی لڑکیاں بتائیں اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی پرستش کریں ، پس نہایت ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتا ہے کیا اللہ کی لڑکیاں ہیں اور تمہارے لڑکے ہیں ؟ پھر فرمایا کیا تو اپنی تبلیغ پر ان سے کچھ معاوضہ طلب کرتا ہے جو ان پر بھاری پڑے ؟ یعنی نبی اللہ دین اللہ کے پہنچانے پر کسی سے کوئی اجرت نہیں مانگتے پھر انہیں یہ پہنچانا کیوں بھاری پڑتا ہے ؟ کیا یہ لوگ غیب دان ہیں ؟ نہیں بلکہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق میں سے کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا کیا یہ لوگ دین اللہ اور رسول اللہ کی نسبت بکواس کر کے خود رسول کو مومنوں اور عام لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں یاد رکھو یہی دھوکے باز دھوکے میں رہ جائیں گے اور اخروی عذاب سمیٹیں گے پھر فرمایا کیا اللہ کے سوا ان کے اور معبود ہیں ؟ اللہ کی عبادت میں بتوں کو اور دوسری چیزوں کو یہ کیوں شریک کرتے ہیں ؟ اللہ تو شرکت سے مبرا شرک سے پاک اور مشرکوں کے اس فعل سے سخت بیزار ہے ۔
اَمۡ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ بَلۡ لَّا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿ؕ۳۶
﴿052:036﴾

یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے (نہیں) بلکہ یہ یقین نہیں رکھتے
اَمۡ عِنۡدَہُمۡ خَزَآئِنُ رَبِّکَ اَمۡ ہُمُ الۡمُصَۜیۡطِرُوۡنَ ﴿ؕ۳۷
﴿052:037﴾

کیا ان کے پاس تمہارے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ (کہیں کے) داروغہ ہیں
اَمۡ لَہُمۡ سُلَّمٌ یَّسۡتَمِعُوۡنَ فِیۡہِ ۚ فَلۡیَاۡتِ مُسۡتَمِعُہُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ؕ۳۸
﴿052:038﴾

یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے، جس پر (چڑھ کر آسمان سے باتیں) سن آتے ہیں؟ تو جو سن آتا ہے وہ صریح سند دکھائے

اس آیات  میں چار  سوالات  ہے   اب اس سے بڑا  چلینج  یہ ہے
  لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۵۷
﴿040:057﴾

آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا (کام) ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے .

اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿ٝ۱۷
﴿088:017﴾

کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب) پیدا کئے گئے ہیں
کائنات پر غور و تدبر کی دعوت
اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی مخلوقات پر تدبر کے ساتھ نظریں ڈالیں اور دیکھیں کہ اس کی بے انتہا قدرت ان میں سے ہر ایک چیز سے کس طرح ظاہر ہوتی ہے اس کی پاک ذات پر ہر ایک چیز کس طرح دلالت کر رہی ہے اونٹ کو ہی دیکھو کہ کس عجیب و غریب ترکیب اور ہیئت کا ہے کتنا مضبوط اور قوی ہے اور اس کے باوجود کس طرح نرمی اور آسانی سے بوجھ لاد لیتا ہے اور ایک بچے کیساتھ کس طرح اطاعت گزار بن کر چلتا ہے۔ اس کا گوشت بھی تمہارے کھانے میں آئے اس کے بال بھی تمہارے کام آئیں اس کا دودھ تم پیو اور طرح طرح کے فائدے اٹھاؤ، اونٹ کا حال سب سے پہلے اس لیے بیان کیا گیا کہ عموما عرب کے ملک میں اور عربوں کے پاس یہی جانور تھا حضرت شریح قاضی فرمایا کرتے تھے آؤ چلو چل کر دیکھیں کہ اونٹ کی پیدائش کس طرح ہے اور آسمان کی بلندی زمین سے کس طرح ہے وغیرہ اور جگہ ارشاد ہے آیت (افلم ینظروا الی اسمآء فوقھم) الخ کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا کیسے مزین کیا اور ایک سوراخ نہیں چھوڑا، پھر پہاڑوں کو دیکھو کہ کیسے گاڑ دئیے گئے تاکہ زمین ہل نہ سکے اور پہاڑ بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ سکیں پھر اس میں جو بھلائی اور نفع کی چیزیں پیدا کی ہیں ان پر بھی نظر ڈالو زمین کو دیکھو کہ کس طرح پھیلا کر بچھا دی گئی ہے غرض یہاں ان چیزوں کا ذکر کیا جو قرآن کے مخاطب عربوں کے ہر وقت پیش نظر رہا کرتی ہیں ایک بدوی جو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر نکلتا ہے زمین اس کے نیچے ہوتی ہے آسمان اس کے اوپر ہوتا ہے پہاڑ اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور اونٹ پر خود سوار ہے ان باتوں سے خالق کی قدرت کاملہ اور صنعت ظاہرہ بالکل ہویدا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ خالق، صانع، رب عظمت و عزت والا مالک اور متصرف معبود برحق اور اللہ حقیقی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی ایسا نہیں جس کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا اظہار کریں جسے ہم حاجتوں کے وقت پکاریں جس کا نام دود زباں بنائیں اور جس کے سامنے سر خم ہوں حضرت ضمام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو سوالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیے تھے وہ اس طرح کی قسمیں دے کر کیے تھے بخاری مسلم ترمذی نسائی مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بار بار سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا تو ہماری یہ خواہش رہتی تھی کہ باہر کا کوئی عقل مند شخص آئے وہ سوالات کرے ہم بھی موجود ہوں اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جوابات سنیں چنانچہ ایک دن بادیہ نشین آئے اور کہنے لگے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے قاصد ہمارے پاس آئے اور ہم سے کہا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنایا ہے آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا وہ کہنے لگا بتائیے آسمان کو کس نے پیدا کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا زمین کس نے پیدا کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا ان پہاڑوں کو کس نے گاڑ دیا؟ ان سے یہ فائدے کی چیزیں کس نے پیدا کیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا پس آپ کو قسم ہے اس اللہ کی جس نے آسمان و زمین پیدا کیے اور ان پہاڑوں کو گاڑا کیا اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں کہنے لگے آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر رات دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں فرمایا اس نے سچ کہا۔ کہا اس اللہ کی آپ کو قسم ہے جس نے آپ کو بھیجا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ کہنے لگے آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مالوں میں ہم پر زکوۃ فرض ہے فرمایا سچ ہے پھر کہا آپ کو اپنے بھیجنے والے اللہ کی قسم کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ فرمایا ہاں مزید کہا کہ آپ کے قاصد نے ہم میں سے طاقت رکھنے والے لوگوں کو حج کا حکم بھی دیا ہے آپ نے فرمایا ہاں اس نے جو کہا سچ کہا وہ یہ سن کر یہ کہتا ہوا چل دیا کہ اس اللہ واحد کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے نہ میں ان پر کچھ زیادتی کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس نے کہا میں ضمام بن ثعلبہ ہوں بنو سعد بن بکر کا بھائی ابو یعلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اکثر یہ حدیث سنایا کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک عورت پہاڑ پر تھی اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا یہ عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اس کے لڑکے نے اس سے پوچھا کہ اماں جان تمہیں کس نے پیدا کیا؟ اس نے کہا اللہ نے۔ پوچھا میرے ابا جی کو کس نے پیدا کیا؟ اس نے کہا اللہ نے پوچھا مجھے؟ کہا اللہ نے پوچھا آسمان کو ؟ کہا اللہ نے، پوچھا زمین کو؟ کہا اللہ نے، پوچھا پہاڑوں کو؟ بتایا کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بچے نے پھر سوال کیا کہ اچھا ان بکریوں کو کس نے پیدا کیا؟ ماں نے کہا انہیں بھی اللہ تعالٰی نے پیدا کیا ہے بچے کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ اللہ تعالٰی بڑی شان والا ہے اس کا دل عظمت اللہ سے بھر گیا وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکا اور پہاڑ پر سے گر پڑا، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ ابن دینار فرماتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی یہ حدیث ہم سے اکثر بیان فرمایا کرتے تھے اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن جعفر مدینی ضعیف ہیں۔ امام علی بن مدینی جو ان کے صاحبزادے اور جرح و تعدیل کے امام ہیں وہ انہیں یعنی اپنے والد کو ضعیف بتلاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم تو اللہ کی رسالت کی تبلیغ کیا کرو تمہارے ذمہ صرف بلاغ ہے حساب ہمارے ذمہ ہے آپ ان پر مسلط نہیں ہیں جبر کرنے والے نہیں ہیں ان کے دلوں میں آپ ایمان پیدا نہیں کر سکتے، آپ انہیں ایمان لانے پر مجبور نہیں کر سکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم کیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے اپنے جان و مال مجھ سے بچا لیے مگر حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی (مسلم ترمذی مسند وغیرہ) پھر فرماتا ہے مگر وہ جو منہ موڑے اور کفر کرے یعنی نہ عمل کرے نہ ایمان لائے نہ اقرار کرے جیسے فرمان ہے آیت (فلا صدق ولا صلی ولکن کذب وتولی) نہ تو سچائی کی تصدیق کی نہ نماز پڑھی بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیر لیا اسی لیے اسے بہت بڑا عذاب ہو گا ابو امامہ باہلی حضرت خالد بن یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو کہا کہ تم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو آسانی سے آسانی والی حدیث سنی ہو اور اسے مجھے سنا تو آپ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم میں سے ہر ایک جنت میں جائیگا مگر وہ جو اس طرح کی سرکشی کرے جیسے شریر اونٹ اپنے مالک سے کرتا ہے (مسند احمد) ان سب کا لوٹنا ہماری ہی جانب ہے اور پھر ہم ہی ان سے حساب لیں گے اور انہیں بدلہ دیں گے، نیکی کا نیک بدی کا بد۔ سورہ غاشیہ کی تفسیر ختم ہوئی۔
وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿ٝ۱۸
﴿088:018﴾

اور آسمان کی طرف کیسے بلند کیا گیا ہے
وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹
﴿088:019﴾

اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں
وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰
﴿088:020﴾

اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی

مثال  :  ( رنگ )  
1)                  فرض کیجئے  ... آپ   رنگ  کو دیوار  پر فینکونگے  تو ہوسکتا  ہے ، جھا ڈو ، پرندہ ، ہاتھ  وغیرہ   بن  جائے  کیا  نریندر  مودی  جی  یا   ایشوریہ  راے  کی  تصویر  بنے گی ، نہیں نا  جب بنانے  پر ہی  بنے گی  تو  اتنی  بڑی  کائنات  کو  بنانے  والا  بھی  تو  کوئی  ڈیزائنر ، کریٹر  CREATOR  ہونگا .
مثال  :  ( گھڑی )
2)                  فرض کیجئے  ... ایک  ریگستان  کے  بیچ  و  بیچ  آپ کو ایک گھڑی WATCH دکھائی  دیتی ہے  آپ کیا  سوچتے ہو .
1)      یا تو یہ  کسی کی گر گی  ہونگی  ؟؟
2)      یا  پھر  خود بخود  ظاہر  ہوگیی  ؟؟
ظاہر  سی بات ہے کوئی  احمق  یہ نہیں کہہ نگا  کے گھڑی ریت  میں سے  ظاہر  ہوئی  ہونگی . DIAL  کی دھات  کانٹوں  کی دھات ، پلاسٹک ، چمڑا  وغیرہ  ریت سے نکلا  ایک ساتھ  جمع ہوا اور  گھڑی بن گی . اور  گھڑی صبح  کا  وقت  بتا  رہی  ہے  تو آپ  ضرور  سوچینگے  کہ  بنانے والا  عقلمند  INTELIGENT ہے  کیونکی  چالو  گھڑی تو  کوئی  اندھا  نہیں بنا سکتا .
       ایک عقلمند  سائنسدان  کی بنائی  ہوئی چالو  گھڑی ، سورج  اور چاند  کے نکلنے  اور ڈبنے  کو دیکھ کر ACCURATE  وقت  دیکھ  کر  بنائی  گئی  تو وہ  سورج  اور چاند  کو بنانے  والا  اور نکالنے  والا  کیسا  ہونگا .؟؟؟

کیا  دن رات  کا  اپنے  وقت  پر آنا  خودبخود  AUTOMATIC  ہوتا  ہونگا  ؟؟؟؟

فرض کیجئے  ...
1)      اگر سورج  زمین   کے درمیان 93 millionmile    کا فاصلہ ہے . اگر دونوں  ایک دوسرے  کے قریب  آگیئے  تو کیا ہونگا . دونوں  قریب آگے تو زمین  جل  جائے گی  اور  دور چلے گئے  تو  برف  بن جائے گی   
2)      سورج کی روشنی  کے بغیر  پیڑ پودے  کی نشو نما  نہیں ہوتی . اس کی   ultraviolet شعا عوں  سے بچنے  کے لئے   ozone کی  layer کس  نے   بنایی .
3)       ہمں  صبح  میں سورج کی روشنی  چاہیے  دن  میں  دیکھنے  کے لئے  روشنی  چاہیے  ہمی رات میں سونے  کے لئے  اندھیرا  چاہیے . یہ نظام  کس  نے دیا  ؟؟  کیا ہم  اس کے  شکر  گذار  نہ   ہو  جبکہ  کچھ  لوگ  کہتے  ہیں       existHe  does not


ایک گھڑی کا بنانے  والا  ایک  inteligent watch  maker  ہے تو کیا اس کائنات کو  اپنے مدار  میں چلانے  والا  کوئی  creator  نہیں ہے  جی ہاں  ووہ  الله  ہے  وہ  ایسا  ہی خدا  ہے ہمیں  بنانے  والا  ... سبحان الله


No comments:

Post a Comment